کیا تو فرمایا : بَہُت اچھا رفیق (ساتھی) تھا، ذکرُ اللہ اور قراٰنِ کریم کی تلاوت کی کثرت کرتا تھا اور اس کے آنسو بہت جلد بہ جایا کرتے تھے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ تم کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔ ( البحرالعمیق ج۱ص ۳۰۰مُلخّصًا ) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
یادِ نبیِّ پاک میں روئے جو عمر بھر
مولیٰ مجھے تلاش اُسی چشمِ تر کی ہے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۸۳) حاجیوں کی حیرت انگیز خیرخواہی
مشہور تابِعی بُزُرْگ حضرتِ سیِّدُنا عبد اللہ ابنِ مُبَارَک رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی علیہ نے حج کا ارادہ کیا تو کئی عاشِقانِ رسول ساتھ چلنے کے لئے تیّار ہوگئے، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی علیہ نے سب سے اَخراجات لیکر ایک صندوق میں ڈال کر محفوظ کر لئے، پھر اپنے پلّے سے سب کے لئے سُواریاں کرائے پر لیں اور قافِلہ سُوئے حرم رَواں دَواں ہو گیا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی علیہ قافِلے والوں کو اپنی جیبِ خاص سے عمدہ سے عمدہ کھانا کِھلاتے رہے۔جب یہ قافِلہ بغدادشریف پہنچا توآپ رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی علیہ نے سب کے لئے بہترین لباس اور کھانے پینے کا کثیرسامان خریدا ۔قافلہ منزلیں طے کرتا ہوابِالآخِرمدینۃُ المنوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً حاضِر ہو گیا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی علیہ نے اپنے ہر ہر رفیق کو مدینۃُ المنوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً سے اُن کے گھر والوں کی فرمائش کے مطابِق چیزیں خرید کر عنایت فرمائیں ۔ اس کے بعد قافِلہ مکۂ معظمہ زَادَہَا اللہ شَرَفًا وَّتَکْرِیْمًا کی پُر نور فَضاؤں میں داخِل ہوااور مناسِک ِ حج ادا کئے ۔ حج کے بعدیہاں سے بھی اپنے پلّے سے سب کو تَبرُّکاتوغیرہ خرید کر دیئے۔ واپَسی میں بھی راستے بھر عاشقانِ رسول پردل کھول کر خَرچ کیا۔جب قافِلہ اپنے وطن پَہُنچ گیا توآپ رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی علیہ نے ان کے گھروں پر حسبِ ضَرورت پَلستر وغیرہ کروا کر چُونا کروادیا ۔ تین دن بعد اپنے قافلے کے تمام حاجیوں کی دعوت کی اوربطورِ سوغات انہیں بہترین ملبوسات عطا کئے، جب سب کھانا کھاچکے توآپ رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی علیہ نے صَنْدُوق منگواکر کھولا اور ہر ایک حاجی کی رقم جُوں کی تُوں واپَس کردی۔ (عُیون الحکایات ص۲۵۴ ملخّصًا) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
دھارے چلتے ہیں عطا کے وہ ہے قطرہ تیرا
تارے کِھلتے ہیں سخا کے وہ ہے ذَرّہ تیرا
(حدائقِ بخشش شریف)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۸۴) امام شافِعی کی سفرِ حرم میں سخاوت
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھاآپ نے! اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّہمارے اولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کی سخاوت بے مِثْل تھی، اور کیوں نہ ہو، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عظیم الشان ہے : اللہ تَعَالٰینے اپنے ہر ولی کو اچّھے اَخلاق اور سخاوت کی فطرت عنایت فرمائی ہے۔ (تاریخ مدینہ دمشق ج۵۴ص۴۷۲) منقول ہے، سیِّدُنا امام شافِعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیجب (یمن کے شہر) صَنْعا سے مکّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی طرف آئے تو آپ کے پاس دس ہزار دراہم تھے، مکّے شریف کے