اورمیں خواب کی دنیا میں پہنچ گیا، میں نے دیکھا کہ دو فرشتے آسمان سے اُترے ، اُن میں سے ایک نے دوسرے سے پوچھا: اِس سال کتنے حاجی آئے؟ اُس نے جواب دیا کہ 6 لاکھ، مگر اُن میں سے صِرْف 6 ہی کا حج قبول ہوا ہے! یہ سُن کر مجھے بَہُت رَنج ہُوا، جی چاہتا تھاکہ پھوٹ پھوٹ کر روؤں ، اِتنے میں پہلے فِرِشتے نے دوسرے سے پوچھا : جن کا حج قَبول نہیں ہوا، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اُن لوگوں کے ساتھ کیا مُعامَلہ کیا؟ دوسرے فِرِشتے نے کہا: ربِّ کریم عَزَّوَجَلَّ نے کَرَم فرمایااور6 مَقبولین کے طفیل 6 لاکھ کا حج بھی قَبول فرمالیا ۔ ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ (۴) ۔ (پ۲۸، الجمعہ: ۴) (ترجَمۂ کنزالایمان: یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے اور اللہبڑے فضل والا ہے ) ( رَوضُ الرَّیاحین ص۱۰۷) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔
اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
اِس بے کسی میں دِل کو مِرے ٹیک لگ گئی
شُہرہ سُنا جو رَحمتِ بے کس نواز کا
(ذوقِ نعت)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۹۳) غیبی اَنگور
حضرتِ سیِّدُنا لَیث بِن سَعد رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں : میں ۳ ۱۱ھ میں حج کے لئے پیدل چلتا ہوا مکّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً پہنچا۔عَصْر کی نَماز کے وَقت جَبَلِ اَبی قُبَیس ([1]) پر گیا تو وہاں ایک بُزُرگ کو دیکھا کہ بیٹھے دُعا ئیں مانگ رہے ہیں اور یارَبِّ یاربِّاِتنی مرتبہ کہا کہ دَم گُھٹنے لگا پھر اِسی طرح لگاتار یَارَبَّاہُ یَارَبَّاہُ کہا پھر اِسی طرح ایک سانس میں یَااللہ یَاللہکہا پھر اِسی طرح یا حیُّ یا حیُّ پھر یَارَحْمٰنُ یَارَحْمٰنُ پھر یَارَحِیْمُ یَارَحَیْمُ پھر یَااَرْحَمَ الرَّاحِمِیْن یَااَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنکہتے رہے۔ اِس کے بعد کہا: ’’یَاللہ! میرا اَنگوروں کو دِل چاہتا ہے، عطا فرما اور میری چادریں پُرانی ہوگئی ہیں ۔ ‘‘ سیِّدُنا لَیث رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں : خدا عَزَّوَجَلَّکی قسم! اُسی وَقت میں نے اُن کے پاس ایک اَنگوروں کی ٹَوکری رکھی دیکھی، حالانکہ اُس وَقْت رُوئے زمین پر کہیں اَنگور نہیں ہونگے اور ساتھ ہی دو نئی چادریں بھی موجود تھیں ! جب وہ کھانے لگے تو میں نے عرض کی : میں بھی آپ کے ساتھ کھاؤں گا۔ فرمایا: کیوں ؟ میں نے عرض کی: اِس لئے کہ جب آپ دُعا فرما رہے تھے تو میں اٰمین اٰمین کہہ رہا تھا۔ فرمایا: اَچّھا آؤ اور کھاؤ لیکن کچھ ساتھ نہ لے جانا۔ میں نے آگے بڑھ کر اُن کے ساتھ اَنگور کھانے شُروع کر دیئے، وہ اَنگور ایسے لذِیذ تھے کہ میں نے اُن جیسے اَنگورکبھی نہیں کھائے تھے، میں نے خوب پیٹ بھر کر کھائے مگر تعجُّب کی بات یہ ہے کہ ٹوکری میں کچھ بھی کمی نہ ہوئی۔ پھر وہ فرمانے لگے : اِن دونوں چادروں میں سے ایک پسند کر لو۔ میں نے عرض کی: چادر کی مجھے ضَرورت نہیں ہے۔ فرمایا: مجھ سے پردہ کر لو تاکہ میں اِن کو پہن لوں ، میں ایک طرف ہٹ گیا تو اُنہوں نے ایک تہبند کے طور پر باندھ لی اور دوسری اَوڑھ لی اور جو چادریں پہلے سے پہنے ہوئے تھے اُن کو ہاتھ میں لے کر پہاڑ کے نیچے اُترے، میں بھی پیچھے ہولیا۔ جبصَفا و مروَہ کے دَرمِیان پہنچے تو ایک
[1] جبلِ اَبی قُبَیس مسجد حرام کے باہَر رُکنِ اَسود کے سامنے ہے، یہ دُنیا کا سب سے پہلا پہاڑ ہے حجرِ اَسوَد جنّت سے آنے کے بعد ایک ماہ اِسی پہاڑ پر تشریف فرما رہا تھا، اورمُعجِزۂ شقُّ القَمَر بھی یہیں ظہور پذیر ہوا تھا۔وَاللہ و رسولُہٗ اعلم عزوجل وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔