پُراَسرارجوان پر پڑی تو وہ وہاں سے چلا گیا ۔اس کے بعد پھر کبھی قافلے والوں کے پاس نہیں آیا۔ جب اُن حاجی صاحِب نے سرکارِ غوثِ پاک عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الرَزَّاق کو اِس حیرت انگیز بات کی خبر دی تو فرمایا: یہ پُراسرار جوان ان جِنّوں میں سے ہے جِنہوں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے قرآنِ مجید سنا ہے۔ (لقط المرجان ص۲۳۹) اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
جِنّ و انسان و مَلک کو ہے بھروسا تیرا
سَرورا مَرجَعِ کُل ہے درِ والا تیرا
(ذوقِ نعت)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حضرتِ سیِّدُناابو اسحٰق ابراہیم خواص رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ہماراقافِلہ سُوئے حرم رواں دَواں تھا ، کسی سبب سے میں قافِلے سے الگ ہو گیا اور مسلسل تین شَبانہ روزچلتا رہا ، اس دَوران مجھے نہ بھوک لگی نہ پیاس ، نہ ہی کوئی حاجت پیش آئی۔ آخِر کار میں ایک ہَرے بھرے لہلاتے گلشن میں جا نِکلا، وہاں خوب پھلدار دَرَخْت تھے، ہر طرف خوشبو دار پھول کِھلے تھے اور بیچ میں ایک چھوٹا سا تالاب تھا۔میں نے اپنے دل میں کہا: یہ تو گویا جنّت ہے ۔ اچانک خوش پوش باعمامہ افراد کا ایک گُروہ آ گیا، انہوں نے مجھے سلام کیا، میں نے جواب دیا، میرے دل میں خیال گزرا ہو نہ ہو یہ جِنّات ہیں کہ یہ سر زمین ہی عجیب وغریب ہے۔ اِتنے میں ان میں سے ایک شخص بولا: ’’ہم قومِ جنّات میں سے ہیں ، ہماراایک مسئلے میں باہَم اختِلاف ہو گیا ہے ۔ ہم نے لَیلۃُ الجِنّ میں اللہ تبارَکَ وَتعالیٰ کا مقدَّس کلام بَزَبانِ شاہِ خیرالانام صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سننے کاشَرَف حاصِل کیاہے اوراُسی پاک کلام کی وجہ سے تمام دُنْیَوی کام ہم سے لے لئے گئے اور اللہ تَعَالٰی کی مَشِیَّت (مرضی) سے اِس جنگل میں یہ تالاب ہمارا مقام بنا دیاگیا ہے۔میں نے دریافت کیا کہ میں نے اپناحج کاقافِلہ جہاں چھوڑا ہے ، وہ جگہ یہاں سے کتنی دُور ہے ؟ یہ سن کر ان میں سے ایک مسکرایا اورکہنے لگا: ’’اے ابو اِسحق! اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہی کیلئے اَسرارو عجائبات ہیں ، جہاں اِس وَقت آپ ہیں ، ایک جوان کے سواآج تک کوئی نہیں آیا اوروہ بھی یہیں وفات پاگیا، ‘‘ یہ کہہ کر اُس نے ایک طرف اشارہ کرکے بتایا : ’’وہ رہا اِس کا مزار ۔ ‘‘ وہ مزار تالاب کے کَنارے تھا اور اُس کے اِرْدگِرد ایسے خوش نُما وخوشبودار پھول کِھلے ہوئے تھے جو اس سے پہلے میں نے کبھی نہ دیکھے تھے۔بات جاری رکھتے ہوئے اُس جِنّ نے کہا: ’’ آپ کے اورقافِلے کے درمیان اِتنے اِتنے مہینے کی مَسافَت (یعنی فاصِلہ) ہے۔ ‘‘ حضرتِ سیِّدُنا ابواسحٰق ابراہیم خواص رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’ میں نے ان جِنّات سے کہا: ’’مجھے اُس مرحوم جوان کے بارے میں کچھ بتایئے۔ ‘‘ تو ایک نے کہا : ’’ہم یہاں تالاب کے کَنارے بیٹھے ہوئے ’’مَحَبَّت ‘‘ کا تذکِرہ کررہے تھے، ہماری گفتگوجاری تھی کہ اچانک ایک جوان ہمارے پاس آیا اوراُس نے سلام کیا۔ ہم نے سلام کا جواب دیا اوراس سے دریافت کیا: ’’ اے جوان! تم کہاں سے آئے ہو؟ ‘‘ بولا: نیشاپور کے ایک شہر سے ۔ ‘‘ ہم نے پوچھا: ’’ تم وہاں سے کب نکلے تھے؟ ‘‘ اُس نے جواب دیا: ’’ سات دن قَبل۔ہم نے پوچھا: ’’ اپنے و طن سے نکلنے کی وجہ ؟ ‘‘ کہا: ’’ اللہ تَعَالٰی کا یہ فرمان : وَ اَنِیْبُوْۤا اِلٰى رَبِّكُمْ وَ اَسْلِمُوْا لَهٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ (۵۴) (پ۲۴، الزمر: ۵۴)