عاشقان رسول کی 130 حکایات مع مکے مدینے کی زیارتیں

گوشہ دیواروں   کے اندر ہیں   اور اندرحاضِر ہونے کاکوئی راستہ ہی نہیں   ۔ جب ظاہری آنکھوں   سے ان مبارک قبروں   کی زیارت ممکن ہی نہیں   تو یہ تصویریں   کہاں   سے اور کس طرح اُتاری گئیں   ؟

ہِجر و فِراق میں   جو یاربّ!  تڑپ رہے ہیں   

اُن کو دِکھادے مولیٰ میٹھے نبی کا روضہ

 (وسائلِ بخشش ص ۲۹۹)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

روضۂ انور پر گنبدِ اَطہر کی تعمیر

حُجرۂ مُبارَکہ پرپہلے کسی قسم کا گنبد نہ تھا، چھت پر صِرْف نِصْف قدِ آدم (یعنی آدھے انسانی قد) کے برابر چاردیواری تھی تاکہ جو کوئی بھی کسی غَرَض سے مسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی چھت پر جائے اُسے احساس رہے کہ وہ نہایت ادب کے مقام پر ہے اور کہیں   بھول میں   بھی اُس پر نہ چڑھے۔ یہاں   یہ بیان کرنا دلچسپی سے خالی نہیں   کہ عبّاسی خِلافت کے ابتدائی دَور میں   مُقْتَدَرشخصیّات کے مزارات پر گنبد بنانے کاسلسلہ ہوا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بغدادشریف اور دِمَشْق میں   گنبددینی شخصیّات کے مَزارات کا باقاعِدہ حصّہ بن گیا۔بغداد شریف میں   امامِ اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مزارِ فائضُ الانوار پر بھی گنبد سَلْجُوقی سلطان مَلِک شاہ نے پانچویں   صَدی میں   تعمیر کروایا تھا۔ اس کے بعداس طرز ِتعمیر کو مِصْر میں   خوب رواج ملا اور وہاں   تھوڑے ہی عرصے میں   بہت سے مزارات پر گنبد بن گئے۔جب قَلاوُوْنخاندان کا دَورآیا تو گنبد تقریباً تمام مُسلِم عَلاقوں   میں   عام ہوچکا تھا۔ مِصْر میں   چُونکہ یہ فنِّ تعمیر بَہُت مقبول تھا اِس لیے سلطان منصور قَلاوُوْننے جب روضۂ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر پہلی مرتبہ گنبد بنوانے کا فیصلہ کیا تو مِصری مِعماروں   کی خدمات حاصل کی گئیں   جنہوں   نے اپنے ہُنَر کو کام میں   لاتے ہوئے 678ہجری میں   حُجْرئہ مُطَہَّرہ پرلکڑی کے تختوں   کی مدد سے خوبصورت گنبد بنایا ۔ روضۂ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے نسبت نے اِس گنبدشریف کوایساحُسن بخشا کہ زائرینِ مدینہ کی آنکھوں   کا تارابن گیا۔

وسیلہ تجھ کو بوبکر و عمر،  عثمان و حیدر کا

الٰہی تُو عطا کر دے ہمیں   بھی گھر مدینے میں   

 (وسائلِ بخشش ص ۴۰۴)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

بڑے اور چھوٹے گنْبد شریف کی تعمیر

 پہلا گنبد شریف تقریبا ً ایک صدی تک عاشِقان رسول کی آنکھیں   ٹھنڈی کرتا رہا۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سیسہ پلائے ہوئے لکڑی کے تختوں   میں   سے چند’ تختے’ضعیف ‘‘ ہو گئے،  چنانچہ سلطانُ النَّاصر حسن بن محمد قَلاوُوْن نے گنْبد شریف کی کچھ خدمت کی ،  پھر بعد میں   سلطان اشرف شعبان بن حسین بن محمد نے765 ہجری میں   مزیدخدمت کی سعادت حاصل کی۔ ابھی ایک صدی اور گزری ہوگی کہ اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ گنبد شریف کی وسیع بنیادوں   پر ’’خدمت ‘‘ یا تعمیرِ نو کی جائے اور ساتھ ہی اُس پنج گوشہ احاطے کی بھی ’’تعمیری خدمت ‘‘ کی جائے جو حضرت ِ سَیِّدُناعمر بن عبدالعزیز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بنوایا تھا ۔ سلطان اشرف قایِتْبائی نے اوَّلًا اپنے ایک

Index