سے جیب میں رکھا اور خوش خوش باہَر نکلا۔ وُہی بس نظر آئی کنڈ کٹر صدائیں لگا رہا تھا: ’’تین روپیہ ملتان! تین روپیہ ملتان! ! ‘‘ دیوانہ بس میں سُوار ہو گیا، تین روپے ادا کئے ، بس چل پڑی، کچھ ہی دیر کے بعد کنڈکٹر نے آواز لگائی: ’’ ملتان آگیا! ملتان آ گیا! ! ‘‘ دیوانہ اُترااوراپنے قافلے والوں کے پاس آپہنچا، چُونکہ یہ سب چند لمحوں میں ہی ہو گیا تھا لہٰذا تمام حُجّاج ابھی وہیں موجود تھے، اُنہوں نے جب دیوانے کے پاس ’’سند ‘‘ دیکھی تو حیران رہ گئے ، اُنہوں نے دیوانے کا بڑا احترام کیا، خُصُوصاً جس حاجی نے دیوانے کے ساتھ مذاق کیا تھا، وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور اُس نے اپنے جُرم سے توبہ کی، دیوانے سے بھی مُعافی مانگی۔اور عزْم کیا کہ جب تک’’ سند ‘‘ عطا نہ ہوئی ہر سال حج کروں گا اور حاضرِ دربارِ مدینہ ہو کر’’سندِ مغفِر ت ‘‘ کی خیرات مانگتا رہوں گا ، مجھے اپنے کریم آقا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سے امّیدِ واثِق ہے کہ مجھ گنہگار کو مایوس نہیں فرمائیں گے۔ دیوانہ اپنے آپ میں نہ تھا چند ہی روز میں اُس کا انتقال ہو گیا۔ اور وہ حاجی اب تک ہر سال برابر حاضِریِ حَرَمینِ شریفین سے مُشرَّف ہو رہا ہے ۔ (تادمِ تحریر (۸ شوال المکرم ۱۴۳۳ھ) واقِعہ سنے کم وپیش 35سال کا عرصہ گزر چکا ہے، فی الحال اُس حاجی کے احوال معلوم نہیں ۔)
تمنّا ہے فرمایئے روزِ محشر
یہ تیری رِہائی کی چھٹی ملی ہے
(حدائقِ بخشش شریف)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۴۴) آقا کے کرم سے گمشدہ بیٹا مل گیا
شیخ ابوالقاسم بن یوسف اِسْکَنْدَرَانِی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی فرماتے ہیں : میں مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً ً میں تھا، ایک عاشقِ رسول کو دیکھا کہ وہ قبرِ انور کے پاس کچھ اس طرح سے فریا د کررہا ہے : ’’ یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! میں آپ کا وسیلہ پکڑتا ہوں تاکہ میرا بیٹا مجھے واپَس مل جائے۔ ‘‘ میرے اِسْتِفْسار پراُس نے بتایا: ’’ جَدّہ شریف سے آتے ہوئے میں قَضائے حاجت کیلئے گیا اِسی اَثنا میں میرا بیٹا لا پتا ہو گیا۔ ‘‘ چند سال بعد وہ شخص مجھے مِصْر میں ملا تو میں نے اس کے بیٹے کے بارے میں دریافْتْ کیا ۔ اُس نے بتایا: ’’ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ ! مجھے میرا بیٹا مل گیا تھا ، ہوا یوں تھا کہ ایک قبیلے نے اُسے زبردستی اپنا غلام بناکر اُونٹ چَرانے پر لگادیا تھا۔ اُسی قبیلے کی ایک عاشقِ رسول اور نیک سیرت خاتون نے خواب میں بحرو بر کے بادشاہ ، دو عالم کے شَہَنْشاہ ، اُمّت کے خیر خواہ، آمِنہ کے مہر و ماہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زیارت کی، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُس سے کچھ یوں فرمایا: ’’مِصری نوجوان کو آزاد کرواکر اُس کے گھر بھیج دو۔ ‘‘ چُنانچِہ اُس عاشقِ رسول خاتون کی سِفارش پر میرے بیٹے کو آزاد کردیا گیا۔ (شواہد الحق فی الاستغاثۃ بسیدالخلق ص ۲۳۰مُلَخّصًا) اللہِ عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
واللہ وہ سُن لیں گے فریاد کو پہنچیں گے
اِتنا بھی تو ہو کوئی جو ’’ آہ ‘‘ کرے دل سے
(حدائقِ بخشش شریف)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد