عاشقان رسول کی 130 حکایات مع مکے مدینے کی زیارتیں

سے فرمایا:   یہ قَطْعۂ اَراضی  (یعنی PLOT)  ہمیں   فروخت کردو تاکہ یہاں   مسجِد تعمیر کی جا سکے۔ بچّوں   نے بصد ادب و نیاز عرض کی:   آقا!  یہ اَراضی ہماری طرف سے بطورِ نذرانہ قَبول فرمایئے توسرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کی اس پیش کش کوشَرَفِ قَبولیّت سے نہ نوازا ۔بِالا ٓخر قیمت ادا کر کے یہ زمین خرید لی گئی۔ عاشقِ اکبر حضرت سیِّدناصدِّیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے  10ہزار دینارادا کیے  (مدینۃُ الرّسول ص ۱۳۰)  دوسری روایت میں   ہے کہ یہ جگہ بنو نَجّار کی تھی۔سرکارِ دو جہان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان سے یہ جگہ قیمتاً فرمائی تو اُنہوں   نے عَرْض کی:   ہم اِس کی قیمت (یعنی اَجر)  اللہ تَعَالٰی سے لیں   گے۔ (وفاء الوفاء ج۱ ص۳۲۳)  اَراضی کا رَقبہ تقریباً 100مُربع گز تھا۔

بارگاہِ رسالت میں   جبرئیل امین کی حاضِری: 

 حضرت سیِّدنا حسن بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیسے ر وایت ہے ،  جب حضورِ انور ،  مدینے کے تاجوَر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے مسجدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف علٰی صاحِبِہا الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کی تعمیر کا ارادہ فرمایا تو حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام  حاضر ہوئے اور عرض کی:   یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! اِس کی اونچائی سات ہاتھ (یعنی تقریباً ساڑھے تین گز) رکھئے،  اِس کی تَزئین (یعنی زیب وزینت)  میں   تکلُّف نہ ہو۔ (وفاء الوفاء ج۱ ص ۳۳۶) اُس وَقت تعمیرات کا یِہی انداز تھا، مسجد میں   طاق نُما محراب، گنبد اورمَنارہ وغیرہ نہ ہوتا۔تبدیلی حالات کے سبب اب عالی شان مسجِد یں   بنانے کی اِجازت ہے۔ فتاویٰ رضویہ شریف جلد8صَفْحَہ 106پر’’ دُرِّمُختار ‘‘ کے حوالے سے دیئے ہوئے ایک جُزئیے کا حصّہ ہے:    ( محراب کے علاوہ (مسجد کے دیگر حصّے )  مُنَقَّش کرنے میں   کوئی حرج نہیں   ) کیونکہ محراب کا نقش و نگار نمازی کو مشغول (غافِل)  کر دیتا ہے ،  البتّہ بَہُت زیادہ نقش و نگار کے لئے تکلُّف کرنا خُصُوصا ً دیوار ِ قبلہ میں   مکروہ ہے۔

مسجدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تعمیر: 

 اِس قَطْعۂ اراضی  (PLOT) سے کھجوروں   کے دَرَخت کٹوادیے گئے ،  مُشرِکین کی قبریں   اُکھڑوا دی گئیں   ۔  (ربیعُ الاوَّل  ۱ھ مطابِق اکتوبر ۶۲۲ء میں   مسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا سنگِ بُنیاد رکھاگیا۔)  صَحابۂ کرام رِضْوانُ اللہ تعالٰی عَلَیْھِمْکے ساتھ خود حُضُور رَحمۃٌ لِّلعٰلمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اینٹیں   اُٹھا اُٹھا کر لاتے اور اپنی زَبانِ فیض تَرجمان سے یہ بھی فرماتے:   اللہمَّ اِنَّ الْاَجْرَ اَجْرُ الْاٰخِرَۃ ۔  فَارْحَمِ الْاَنْصارَ وَالْمُھاجِرَۃ اے ربِّ قُدُّوس ! آخِرت کا بدلہ ہی بہترہے تُو انصار اور مہاجِرین پر رَحْم فرما۔         (وفاء الوفاء ج۱ ص۳۲۶، ۳۲۸)  

تعمیر مسجِد نَبَوی میں   آقا نے شرکت فرمائی: 

  سیِّدُنا ابو ہریرہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  فرماتے ہیں   :  مدینے والے آقا،  میٹھے میٹھے مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اینٹیں   اُٹھا کر لا رہے تھے ،  یہ دیکھ کر میں   نے عرض کی:   یارسولَ اللہ !  یہ اینٹیں   مجھے دے دیجئے میں   لے جاتا ہوں   ۔ فرمایا :  اور کافی اینٹیں   رکھی ہیں   ، اُٹھا لاؤ!  یہ میں   لے جا رہا ہوں   ۔  (مسند امام احمد ج۳ص۳۲۳حدیث۸۹۶۰)  مسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی کچّی اینٹوں   سے تعمیر کی گئی اور اس کی چھت کَھجور کی شاخوں   سے تھی اور اس کے سُتون کھجور کے تنے تھے۔ (وفاء الوفاء ج۱ ص۳۲۷)

تِری سَادَگی پہ لاکھوں   تِری عاجِزی پہ لاکھوں   

ہوں   سلامِ عاجِزانہ مَدَنی مدینے والے

 

Index