عاشقان رسول کی 130 حکایات مع مکے مدینے کی زیارتیں

صفا مروہ:  :   یہ دونوں   پہاڑ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی نشانیوں   میں   سے ہیں   ،  چُنانچِہ اللہ تَعَالٰی پارہ2 سُوْرَۃُالْبَقَرہآیت نمبر 158میں   ارشاد فرماتا ہے:   اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآىٕرِ اللّٰهِۚ-فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِهِمَاؕ-وَ مَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًاۙ-فَاِنَّ اللّٰهَ شَاكِرٌ عَلِیْمٌ (۱۵۸)   (پ۲، البقرۃ:   ۱۵۸)

ترجَمۂ کنزالایمانبیشک صفا اور مروہ اللہ کے نشانوں   سے ہیں   تو جو اس گھر کا حج یا عمرہ کرے اس پر کچھ گناہ نہیں   کہ ان دونوں   کے پھیرے کرے اور جو کوئی بھلی بات اپنی طرف سے کرے تو اللہ نیکی کا صلہ دینے والاخبردار ہے۔

مرد وعورت پتّھر بن گئے: 

 مُفَسِّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر  تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان  فرماتے ہیں   :  پچھلے زمانے میں   ایک شخص تھا اِسَاف اورایک عورت تھی نائلہ،  انہوں   نے خانۂ  کعبہ میں   ایک دوسرے کو بد نیَّتی سے ہاتھ لگایا۔ عذاب الٰہی سے دونوں   پتَّھرہو (یعنی بُت بن) گئے اور عبرت کے لئے ’’اِسَاف ‘‘ کو تو صفا پہاڑ پر رکھ دیا گیا اور’’ نائلہ ‘‘ کو مَروہ پر تا کہ لوگ انہیں   دیکھ کر یہاں   گناہ کے خیال سے بچیں   ،  کچھ زمانے کے بعد جب جَہالت کا زور ہوا تو لوگوں   نے ان کی پرستِش شروع کر دی کہ جب صفا اور مَروہ کے درمیان دوڑتے تو تعظیم کے ارادے سے انہیں   چُھو لیتے ،  مسلمانوں    (صحابہ کرام)  کو صفا مروہ کے درمیان دوڑنا ناپسند ہوا کیونکہ ا س میں   بُت پرستوں   اور بُت پرستی سے مُشابَہَت تھی۔ تب یہ آیتِ کریمہ اُتری جس میں   اُ ن کی تسلّی فرمائی گئی کہ تمہارا یہ کام  (یعنی سعی کرنا) رِضا ئے الہٰی کے لئے ہے ، تم اِس میں   حَرَج نہ سمجھو۔  (تفسیرِ نعیمی ج۲ ص ۹۷)

بی بی ہاجِرہ کی سعی کی ایمان افروز حکایت: 

 حکمِ الٰہی سے حضرتِ سیِّدُنا ابراھیم خلیلُ اللہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کھجوروں   کی ایک ٹوکری،  کچھ روٹی کے ٹکڑے اور پانی کا مشکیزہ دے کرسیِّدَتُناہاجِرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا  اور اپنے دودھ پیتے لختِ جگر حضرتِ سیِّدُنااسمعٰیل عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کو بے آب وگِیاہ میدان میں   چھوڑ کر واپَس تشریف لے گئے۔ مُفَسِّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر  تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان  فرماتے ہیں   :  جب تک خُرما (یعنی کَھجوریں   )  اور پانی رہا حضرتِ ہاجرہ  (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا ) اطمینان سے گزر کرتی اور فرزند کو دودھ پلاتی رہیں   مگر پانی ختم ہونے پر پیاس نے ستایا،  لختِ جگر نے بے اختیار رونا شروع کر دیا اپنی تو اتنی فکر نہ ہوئی مگر نورِ نظر کی بے قراری دیکھی نہ گئی،  اُٹھیں   اور صفا پر چڑھیں   کہ شاید کہیں   پانی کا نشان ملے مگر نہ ملا مایوس ہو کر نیچے اتریں   ،  مروہ پہاڑ کی طر ف روانہ ہوئیں   مگر نظر فرزند پر تھی،  راہ کے کچھ حصّے میں   فرزند سے آڑ ہو گئی تو آپ اسے جلد طے کرنے کے لیے دَوڑ کر چلیں   ، اِس آڑ سے نکل جانے پر پھر آہِستہ چلیں   ،  یہاں   تک کہ’’ مَروہ ‘‘ پر پہنچ گئیں   وہاں   چڑھ کر بھی پانی کہیں   نہ دیکھا پھر’’ صفا ‘‘ کی طرف روانہ ہوئیں   ۔ اِسی طرح سات چکر کیے ہر دفعہ درمیان میں   دوڑتی تھیں    (صفا و مروہ کی سعی اسی کی یاد گار ہے)  اَخِیر بار’’مروہ ‘‘ پر چڑھیں   تو ایک ہیبت ناک آواز کان میں   پڑی!  ڈر کر فرزند کے پاس آئیں   دیکھا کہ وہ روتے میں   اپنی اَیڑیاں   زمین پر رگڑ رہے ہیں   جس سے شِیریں    (یعنی میٹھے ) پانی کا چَشمہ جاری ہے!  بَہُت خوش ہوئیں   اور اس کے گرد مٹّی جمع کر کے فرمانے لگیں   :   یَامَائُ زَمْ زَمْ (یعنی) ’’اے پانی!  ٹھہر ٹھہر ‘‘ اس لیے اس کانام آبِ زم زم ہوا۔  (تفسیرِ نعیمی ج۱ ص۶۹۴)

اس میں   زم زم ہو کہ تھم تھم اس میں   جم جم ہو کہ بیش

 

Index