سے اپنی سُواری تیزکردیتے ٭مدینۃُ المنوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا قلبِ مبارک سُکون پاتا ٭یہاں کاگَردوغبار اپنے چہرۂ انور سے صاف نہ فرماتے اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو بھی اس سے مَنْع فرماتے اور ارشاد فرماتے کہ خاکِ مدینہ میں شفاء ہے۔ (جذب القلوب ص ۲۲) حضرتِ سیدنا سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ جب رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غزوۂ تَبوک سے واپس تشریف لارہے تھے تو تبوک میں شامل ہونے سے رہ جانے والے کچھ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانملے انہوں نے گرد اُڑائی ، ایک شخص نے اپنی ناک ڈھانپ لی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کی ناک سے کپڑا ہٹایا اور ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! ’’مدینے کی خاک میں ہر بیماری سے شفا ہے۔ ‘‘ (جامع الاصول للجزری ج۹ص۲۹۷حدیث۶۹۶۲) ٭جب کوئی مسلمان زیارت کی نیّت سے مدینۃُ المنوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً آتا ہے تو فِرِشتے رَحْمت کے تحفوں سے اُس کا استِقبال کرتے ہیں ۔الخ۔ (جذب القلوب ص۲۱۱ ) ٭سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں مرنے کی ترغیب ارشاد فرمائی ٭ یہاں مرنے والے کی سرکارِمدینۂ منوّرہ، سردارِمکّۂ مکرّمہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ شَفاعت فرمائیں گے ٭ جو وُضو کرکے آئے اورمسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں نَماز ادا کرے اسے حج کا ثواب ملتا ہے ٭ حجرہ ٔمبارَکہ اور منبرِ منوّر کے درمیان کی جگہ جنّت کے باغوں میں سے ایک باغ (جنّت کی کیاری) ہے ٭ مسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں ایک نمازپڑھنا پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے ( ابن ماجہ ج۲ ص۱۷۶ حدیث۱۴۱۳) ٭مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی سرزمین پر مزارِ مصطَفٰے ہے جہاں صبح و شام سترستر ہزار فرشتے حاضر ہوتے ہیں ٭ یہاں کی زمین کا وہ مبارَک حصّہ جس پررسولِ انور، مدینے کے تاجور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا جسمِ منوَّر تشریف فرماہے وہ ہر مقام حتّٰی کہ خانۂ کعبہ، بیتُ المعمور ، عرش و کرسی اور جنّت سے بھی افضل ہے ٭دجّال مدینۃُ المنوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں داخل نہیں ہوسکے گا٭اہلِ مدینہ سے بُرائی کا ارادہ کرنے والا عذاب میں گرفتار ہوگا٭ یہاں کا قبرستان جنت البقیع دنیا کے تمام قبرستانوں سے افضل ہے، یہاں تقریباً10 ہزارصحابۂ کرام واَجَلَّہ اہلبیتِ اطہار عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان اور بے شمار تابعینِ کرام واولیاءِ عِظام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام اور دیگر خوش نصیب مسلمان مدفون ہیں۔
رہیں اُن کے جلوے بسیں اُن کے جلوے
مِرا دل بنے یادگارِ مدینہ
(ذوق نعت)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
مسجدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف علٰی صاحِبِہا الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کی اراضی کا حُصُول:
مسجدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف علٰی صاحِبِہا الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کی اَراضی (یعنی زمین) دو یتیم بچّوں سَہْل اور سُہَیل (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا) کی ملکیت تھی، یہاں مُشرِکین کی قبریں تھیں ، زمین ناہموار تھی، یہ دونوں بچے حضرتِ سیِّدُنا اَسعد بن زُرارہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے زیرِ کفالَت (ذمّے داری) تھے۔ اس زمین پرکَھجوریں خشک کی جاتی تھیں ۔ حُضُور سیِّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بچّوں