اقامت کہی جاتی ہے۔ یہ یاد رہے ! اِس جگہ پر حضرت سیِّدُنا بِلال حبشی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکا اذان دینا ثابت نہیں ۔ ( ملخصاجستجو ئے مدینہ ص ۵۱۸) حضرت سیِّدُنا بِلال حبشی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہاں کھڑے ہو کر اَذان دیتے تھے اب اُس جگہ کی نشاندہی دشوار ہے، اِ س کی تاریخ ملاحظہ ہو: احکامِ اذان کے نفاذ کے بعد شروع شروع میں حضرت سیِّدُنا بلال اِبنِ رَباح مسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف کے قریب واقِع ایک اونچے مکان کی چھت پر تشریف لے جا کر اذان دیا کرتے تھے مگر اس کے بعد ان کے لیے لکڑی کا ایک اسٹول بنوادیا گیا تھا جس پر کھڑے ہو کر وہ اس وقت تک اذان دیتے رہے جب تک کہ وہ عازم دِمَشق نہیں ہوئے ۔ اس اسٹول کوحُجرۂ امُّ المومنین حضرت سیِّدتنا حفصہ بنتِ عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی چھت پر رکھ دیا گیا تھا جس پر کھڑے ہو کر اذان دی جاتی تھی۔ اس کے بعد آلِ عمر فاروق نے اسے سیِّدُنا حضرت بِلال اِبنِ رَباح حبشی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے تبُّرک اور آثار کے طور پر سنبھال لیا تھا جو کہ صدیوں تک محفوظ رہا۔ قطب الدین حنفی (متوفی ۹۹۰ ہجری) اپنی تاریخِ مدینہ میں تصدیق کرتے ہیں کہ ان کے ایّام میں بھی وہ اسٹول حضرتِ سیِّدُنا بلال حبشی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے آثار کے طور پر محفوظ تھا پھر جب دارِآلِ عمر کو ایک مدرَسہ میں تحویل کر دیا گیا تب بھی وہ مُتبَّرک آثار قائم و دائم رہا لیکن بیسویں صدی کے شُروع میں وہ گوشۂ گمنامی میں چلا گیا۔
صُفَّہ شریف
صُفّہ سائِبان اور سائے دار جگہ کو کہتے ہیں ۔مسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاممیں بابِ جبرائیل عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامسے داخِل ہوں تو کچھ قدم چلنے کے بعد سیدھے ہاتھ کی جانب صُفّہ شریف اپنے جلوے لُٹا رہا ہے ۔ صُفّہ زمین سے آدھا مِیٹر بُلند ہے جبکہ اِس کی لمبائی 12 میٹر اور چوڑائی 8مِیٹرہے او ر اِس کے اَطراف میں تقریباً دوفُٹ اُونچی پیتل کی جالی کا خوبصورت حِصار (یعنی جنگلہ) بنا ہوا ہے، یہاں زائرین تِلاوتِ قراٰنِ مُبین بھی کرتے ہیں اور نَماز بھی پڑھتے ہیں ۔ یِہی وہ مَقام ہے جہاں فُقَراء مُہاجِرین صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا ایک گُروہ اِسلامی تعلیم کے حُصُول اور تَطہِیرِقُلوب (یعنی دلوں کی پاکیزگی کے حُصول) کی خاطر صبح وشام قِیام پذیر رہتا تھا۔ان کی تعداد 70 اور 400کے درمیان رہی ہے۔ تاجدارِ مدینہ، راحتِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس جب کہیں سے صَدَقہ حاضِر کیا جاتاتواَصحابِ صُفَّہ عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے یہاں بھجوا دیتے اور اگر کہیں سے ہَدِیّہ (یعنی تحفہ ونذرانہ) حاضِر خدمت ہوتاتو خود بھی تَناوُل فرماتے اور اَصحاب ِصُفَّہ عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کو بھی شریک فرما لیتے۔ ‘‘ علمِ دین کے یہ شائقین نہایت سادہ اورغریب و مسکین ہوا کرتے تھے انہیں میں کے ایک مشہور صَحابی حضرتِ سیِّدُنا ابو ہُریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان فرماتے ہیں : میں نے 70اصحابِ صُفّہ کو دیکھا کہ ان کے پاس چادر تک نہ تھی فَقَط تہبند تھا یا کمبل جسے اپنی گردن میں باندھ کرلٹکا لیتے تھے اور وہ بھی اِس قدر چھوٹا ہوتا کہ کسی کی آدھی پنڈلیوں تک پہنچتا اور کسی کے ٹخنوں تک اور ہاتھ سے اسے تھامے رہتے کہ کہیں سترکُھل نہ جائے ۔ (بخاری ج۱ ص۱۶۹حدیث۴۴۲) سیِّدُنا مُجاہد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ حضرتِ سیِّدُنا ابوہُریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان فرمایا کرتے تھے: قسم ہے اُس ذات پاک کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں ! کہ میں بسا اوقات بھوک کی شدّت کے باعِث اپنا شکم (یعنی پیٹ) اور سینہ زمین پر لگا دیتا اوربعض اوقات پیٹ پر پتَّھر باندھ لیتا تا کہ سیدھا کھڑا ہو سکوں ۔ (بخاری ج۴ ص ۲۳۴ حدیث ۶۴۵۲) جناب ِرَحمۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان علمِ دین کے عاشِقین کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اپنے وَجد آفرین کلمات سے