عاشقان رسول کی 130 حکایات مع مکے مدینے کی زیارتیں

کا لفظِ’’مدینہ  ‘‘ سے یوں   اظہار ہو رہا ہے کہ ’’ مدینہ  ‘‘ کا پہلا حَرْف م اور آخِری حَرْف ہ ملا دیں   تو ’’ مہ ‘‘ یعنی چاند ہُوا اور ’’ مَہ ‘‘ کے دونوں   حُرُوف م اور ہ کے بیچ میں   لفظِ ’’ دین ‘‘ موجود ہے جس سے لفظ’’ مدینہ  ‘‘ بن گیا!  اور یوں   گویا مدینہ نے ’’ دین ‘‘ کو اپنے دامن میں   لیا ہوا ہے!

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

عجیب انداز میں   نفس کی گرفت

    حضرتِ سیِّدُنا ابو محمد مُرتَعِش رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں   :  ’’ میں   نے بَہُت سے حج کئے اوران میں   سے اکثر سفرِ حج کسی قسم کا زادِ راہ لئے بِغیر کئے ۔پھر مجھ پر آشکار (یعنی ظاہر)  ہوا کہ یہ سب تو میرے نفس کا دھوکا تھا کیونکہ ایک مرتبہ میری ماں   نے مجھے پانی کا گھڑا بھر کر لانے کا حکم دیا تو میرے نفس پر ان کا حکم گِراں    (یعنی بوجھ)  گزرا،  چُنانچِہ میں   نے سمجھ لیا کہ سفرِ حج میں   میرے نفس نے میری مُوافَقَت فَقَط اپنی لذَّت کے لئے کی اور مجھے دھوکے میں   رکھا کیونکہ اگر میرا نفس فَناء ہو چکا ہوتا تو آج ایک حقِّ  شَرْعی پورا کرنا (یعنی ماں   کی اطاعت کرنا)  اسے (یعنی نفس کو) بے حد دشوار کیوں   محسوس ہوتا !  ‘‘  (الرسالۃ القشیریۃ ،  ص۱۳۵ )

حُبِّ جاہ کی لذّت عبادت کی مَشَقَّت آسان کر دیتی ہے                                   

          میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!  دیکھا آپ نے !  ہمارے بُزُرْگارنِ دین  رَحمَہُمُ اللہُ الْمُبِینکیسی مَدَنی سوچ رکھتے اور کس قَدَر عاجِزی کے خُوگر ہوتے ہیں   ۔ بعضوں   کی عادت ہوتی ہے،  کہ وہ عام لوگوں   سے تو جُھک جُھک کر ملتے اور اُن کیلئے بچھ بچھ جاتے ہیں   مگر والِدَین ،  بھائی بہنوں   اور بال بچّوں   کے ساتھ اُن کا رویّہ جار حانہ ، غیر اخلاقی اور بسااوقات سخت دل آزار ہوتا ہے ۔کیوں   ؟ اس لئے کہ عوام میں   عمدہ اَخلاق کا مُظاہرہ مقبولیت عامّہ کا باعِث بنتا ہے جبکہ گھر میں   حسنِ سُلوک کرنے سے عزّت و شہرت ملنے کی خاص امّید نہیں   ہوتی! اس لئے یہ لوگ عوام میں   خوب میٹھے میٹھے بنے رہتے ہیں   !  اِسی طرح جو اسلامی بھائی بعض مُستَحَب کاموں   کے لئے بڑھ چڑھ کرقُربانیاں   پیش کر تے مگر فرائض و واجبات کی ادائیگی میں   کوتاہیاں   برتتے ہیں   مَثَلاً ماں   باپ کی اِطاعت ، بال بچّوں   کی شریعت کے مطابِق تربیّت اور خود اپنے لئے فرض عُلُوم کے حُصُول میں   غَفلت سے کام لیتے ہیں   اُن کیلئے بھی اِس حکایت میں   عبرت کے نِہایت اَہَم مَدَنی پھول ہیں   ۔ حقیقت یہ ہے کہ جن نیک کاموں   میں   ’’ شُہرت ملتی اور واہ واہ!  ہوتی ہے  ‘‘ وہ دشوار ہونے کے باوُجُود بآسانی سَر انجام پا جاتے ہیں   کیوں   کہ حُبِّ جاہ  (یعنی شُہرت و عزَّت کی چاہَت)  کے سبب ملنے والی لذّت بڑی سے بڑی مَشَقَّت آسان کر دیتی ہے ۔یاد رکھئے! ’’حُبِّ جاہ ‘‘ میں   ہلاکت ہی ہلاکت ہے ۔عبرت کیلئے دو فرامینِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم مُلاحَظہ ہوں   :   (۱)  اللہ عَزَّوَجَلَّکی طاعتَ  (یعنی عبادت)  کو بندوں   کی طرف سے کی جانے والی تعریف کی مَحَبَّت سے ملانے سے بچتے رہو،  کہیں   تمہارے اعمال برباد نہ ہو جائیں    (فردوس الاخبار ج۱ ص ۲۲۳ حدیث ۱۵۶۷ )   (۲)  دو بھوکے بھیڑیے بکریوں   کے رَیوڑ میں   اتنی تباہی نہیں   مچاتے جتنی تباہی حُبِّ مال وجاہ  (یعنی مال و دولت اور عزّت و شہرت کی محبَّت)  مسلمان کے دین میں   مچاتی ہے۔                             (ترمذی ج۴ ص۱۶۶حدیث ۲۳۸۳)

حُبِّ جاہ کے متعلِّق اہم ترین مَدَنی پھول

   ’’حُبِّ جاہ ‘‘ کے تعلُّق سے اِحْیاء ُالعلوم کی جلد 3 ص616تا617کو سامنے رکھ کر کچھ مَدَنی پھول پیشِ خدمت ہیں   :  ’’  (حُبِّ جاہ و رِیا ) نفس کوہلاک کرنے والے آخِری اُمور اور باطِنی مکرو فَریب سے ہے،  اِس میں   عُلَماء،  عبادت گزاراور آخِرت کی منزل طے کرنے والے لوگ مبتَلاکیے جاتے ہیں   ،  اس طرح کہ یہ حَضْرات بسا اوقات خوب کوشِشیں   کر کے عبادات بجا لانے،  نفسانی خواہِشات پر

Index