رہ جاتے ہیں ! ‘‘ یہ سن کر مجھ پر رقّت طاری ہوگئی اور میں نے بڑے ادب سے عَرْض کی: ’’ حُضُور! میں اللہ غفّار عَزَّ وَجَلَّ سے مُعافی کا طلبگارہوں اور آپ سے بھی در گزرکا خواستگار ہوں ، مجھے مُعاف فرمادیجئے۔ ‘‘ فرمانے لگے : ’’یہ آپ کیسی باتیں کررہے ہیں ؟ ‘‘ میں نے عَرض کی: مجھ سے بَہُت بڑی غَلَطی ہوگئی کہ آپ کے ساتھ سفر نہ کیا ، براہِ کرم! مجھے مُعافی سے نواز تے ہوئے شریکِ سفر کر لیجئے۔ فرمایا: ’’آپ مجھے ساتھ نہ رکھنے کی قسم کھاچکے ہیں اور میں آپ کی قسم نہیں تُڑواناچاہتا۔ ‘‘ میں نے کہا: اچھا! پھر اِتنا کرم فرمادیجئے کہ ہر منزِل (پڑاؤ) پر اپنی زیارت کی ترکیب فرماد یجئے۔ فرمایا: ’’ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ۔ ‘‘ پھر وہ میری نگاہوں سے اَوجھل ہوگئے اور میں بھی آگے بڑھ گیا ۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّکے اس نیک بندے کی بَرَکت سے باقی سفر میں مجھے بھوک وپیاس اور تھکاوٹ کا اِحساس تک نہ ہوا۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّمجھے ہر منزِل پر اس بُزُرْگ کی زیارت ہوتی رہی یہاں تک کہ میں مدینۃُ المنوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی مُشکبار فَضاؤں سے فیضیاب ہونے کے بعد مکّۂ معظمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً پَہُنچ گیا۔وہاں پر حضرتِ سیِّدُنا ابو بَکْر کَتَّانی اور حضرتِ سیِّدُنا ابو الحسن مُزَیِّن رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِماسے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ جب میں نے انہیں یہ حیرت انگیز واقِعہ سنایا تو اُنہوں نے فرمایا: ’’ارے نادان ! جانتے ہو، وہ کون تھے؟ وہ حضرتِ سیِّدُنا ابوجَعْفَر مَجذوم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَیُّوم تھے، ہم تو دعائیں مانگتے ہیں کہ کاش! اللہ عَزَّ وَجَلَّہمیں اپنے اِس وَلی کا دیدار نصیب فرمائے۔سنو! اب جب بھی تمہاری ان سے ملاقات ہو تو ہمیں ضَرور بتا نا ۔ دسویں ذُوالْحِجَّۃُ الْحَرَام کو جب میں نے جَمْرَۃُالْعَقَبہ یعنی بڑے شیطان کو رَمی کی (یعنی کنکریاں ماریں ) تو کسی شخص نے مجھے اپنی طرف کھینچا اور کہا: ’’ اے ابوالحُسین! السَّلامُ علیکم۔ ‘‘ جیسے ہی میں نے پیچھے مُڑکر دیکھا تو میرے سامنے وُہی بُزُرْگ یعنی حضرت سیِّدُنا ابو جَعْفَر مجذُوم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَیُّوم موجود تھے۔ انہیں دیکھتے ہی مجھ پر رِقَّت طاری ہوگئی اورمیں روتے روتے بے سُدھ ہوکر گر پڑا! جب میرے حواس بحال ہوئے تو وہ تشریف لے جا چکے تھے ۔ پھرآخِری دن طوافِ رخصت کر کے ’’مقامِ ابراہیم ‘‘ پر دو رَکْعَت نَماز پڑھنے کے بعد میں نے جیسے ہی دُعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے اچانک کسی نے مجھے اپنی طرف کھینچا ، دیکھا تو حضرت سیِّدُنا ابوجَعْفَر مجذوم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَیُّوم تھے ، فرمانے لگے : ’’ابو الحسین! گھبرانے یا شور مچانے کی ضَرورت نہیں ! بے فکر رہئے۔ ‘‘ میں خاموش رہا اورمیں نے بارگاہِ خدا وندی عَزَّ وَجَلَّمیں تین دعائیں کیں ، اُنہوں نے میری ہر دُعا پر ’’ آمین ‘‘ کہا ۔ اس کے بعد وہ میری نظروں سے اوجھل ہوگئے اور دوبارہ نظر نہیں آئے ۔میری تین دعائیں یہ تھیں ، (۱) اے میرے پاک پَرْوَرْدَگار عَزَّ وَجَلَّ! میرے نزدیک ’’فَقْر ‘‘ ایسا محبوب بنادے کہ دنیا میں اِس سے زیادہ کوئی شے مجھے پیاری نہ ہو (۲) مجھے ایسا نہ بنانا کہ میری کوئی رات اِس حالت میں گزرے کہ میں نے صُبْح کے لئے کوئی چیز ذَخیرہ کر کے رکھی ہو۔ پھر ایسا ہی ہوا کئی سال گزر گئے لیکن میں نے کوئی چیز اپنے پاس ذَخیر ہ کر کے نہ رکھی اور تیسری دعا یہ تھی: (۳) ’’اے میرے پاک پَرورْدَگار عَزَّ وَجَلَّ! جب تُو اپنے اولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کو اپنے دیدار کی دولتِ عُظْمیٰ سے مشرَّف فرمائے تو مجھے بھی اُن میں شامل فرما لینا ۔ ‘‘ مجھے اپنے ربِّ مجید عَزَّ وَجَلَّ سے پوری اُمّید ہے کہ میری ان دعاؤں کو ضَرور پورا فرمائے گا کیونکہ ان پر ایک ولیِّ کامِل نے ’’آمین ‘‘ کی مُہر لگائی تھی ۔ (عیون الحکایات ص۲۹۱) اللہ عَزَّ وَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم