عاشقان رسول کی 130 حکایات مع مکے مدینے کی زیارتیں

قابو پانے بلکہ شُبُہات سے بھی خود کو بچانے میں   کامیاب ہو جاتے ہیں   ،  اپنے اَعْضا کو ظاہِری گناہوں   سے بھی بچا لیتے ہیں   مگر عوام کے سامنے اپنے نیک کاموں   ،  دینی کارناموں   اورنیکی کی دعوت عام کرنے کے لئے کی جانے والی کاوِشوں   جیسے کہ میں   نے یہ کیا ،  وہ کیا،  وہاں   بیان تھا،  یہاں   بیان ہے،  بیانات  (کرنے یا نعت پڑھنے ) کیلئے اِتنی اِتنی تاریخیں   ’’بُک ‘‘ ہیں   ، مَدَنی مشورے میں   رات اِتنے بج گئے اور آرام نہ ملنے کی تھکن ہے اِسی لئے آواز بیٹھی ہوئی ہے۔’’مَدَنی قافِلے میں   سفر ہے، اِتنے اِتنے مَدَنی قافِلوں   میں   یامدنی کاموں   کیلئے فُلاں   فُلاں   شہروں   ،  ملکوں   کا سفر کر چکا ہوں   وغیرہ وغیرہ کے اظہار کے ذَرِیعے اپنے نَفْس کی راحت کے طلبگار ہوتے ہیں   ، اپناعلم و عمل ظاہِر کرکے مخلوق کے یہاں   مقبولیّت اور ان کی طرف سے ہونے والی اپنی تعظیم و توقیر، واہ واہ اور عزّت کی لذَّت حاصل کرتے ہیں   ،  جب مقبولیّت وشُہرت ملنے لگتی ہے تواُس کا نَفْس چاہتا ہے کہ علم و عمل لوگوں   پر زیادہ سے زیادہ ظاہِرہو نا چاہئے تا کہ اور بھی عزّت بڑھے لہٰذا وہ اپنی نیکیوں   ،  علمی صلاحیتوں   کے تعلُّق سے مخلوق کی اطِّلاع کے مزید راستے تلاش کرتا ہے اور خالِق عَزَّ وَجَلَّ کے جاننے پرکہ میرا ربّ عزوجل میرے اعمال سے باخبر ہے اورمجھے اجردینے والا ہے قَناعت نہیں   کرتا بلکہ اِس بات پر خوش ہوتا ہے کہ لوگ اِس کی واہ واہ اورتعریف کریں   اور خالِق عَزَّ وَجَلَّ کی طرف سے حاصِل ہونے والی تعریف پر قَناعت نہیں   کرتا، نَفْس یہ بات بخوبی جانتاہے کہ لوگوں   کو جب اِس بات کا علم ہو گا کہ فُلاں   بندہ نفسانی خواہِشات کاتارِک ہے،  شُبُہات سے بچتاہے ،  راہِ خدا میں   خوب پیسے خرچ کرتا ہے،  عبادات میں   سخت مَشَقَّت برداشت کرتا ہیخوفِ خدا اور عشقِ مصطَفٰے میں   خوب آہ و زاری کرتاا ور آنسو بہاتا ہے ، مَدَنی کاموں   کی خوب دھومیں   مچاتا ہے،  لوگوں   کی اصلاح کیلئے بَہُت دل جلاتا ہے،  خوب مَدَنی قافِلوں   میں   سفر کرتاکراتا ہے، زَبان ، آنکھ اور پیٹ کاقُفلِ مدینہ لگاتاہے ، روزانہ فیضانِ سنّت کے اِتنے اِتنے درس دیتا ہے،  مدرسۃ المدینہ  (بالغان)  ، صدائے مدینہ ،  علاقائی دورہ برائے نیکی کی دعوت کا بڑا ہی پابند ہے تو اُن (لوگوں   )  کی زبانوں   پر اس (بندے)  کی خوب تعریف جاری ہوگی،  وہ اسے عزّت و اِحترام کی نگاہ سے دیکھیں   گے ،  اس کی ملاقات اور زیارت کواپنے لئے باعثِ سعادت اور سرمایۂ آخِرت سمجھیں   گے، حُصولِ بَرَکت کیلئے مکان یادُکان پر ’’دوقدم ‘‘ رکھنے،  چل کردُعافرما دینے، چائے پینے،  دعوتِ طعام قَبول کرنے کی نہایت لجاجت کے ساتھ درخواستیں   کریں   گے، اس کی رائے پر چلنے میں   دو جہاں   کی بھلائی تصوُّر کریں   گے،  اسے جہاں   دیکھیں   گے خدمت کریں   گے اور سلام پیش کریں   گے، اِس کا جھوٹا کھانے پینے کی حِرْص کریں   گے، اس کاتحفہ یااِس کے ہاتھ سے مَس کی ہوئی چیز پانے میں   ایک دوسرے پر سبقت کریں   گے،  اس کی دی ہوئی چیز چُومیں   گے ، اس کے ہاتھ پاؤں   کے بوسے لیں   گے، اِحتِراماً ’’حضرت! حُضُور!  یاسیِّدی!  ‘‘ وغیرہ اَلقاب کے ساتھ خاشِعانہ انداز اور آہِستہ آواز میں   بات کریں   گے ،  ہاتھ جوڑ کرسرجُھکا کردُعاؤں   کی التِجائیں   کریں   گے،  مجالِس میں   اِس کی آمد پر تعظیماً کھڑے ہوجائیں   گے، اِسے ادب کی جگہ بٹھائیں   گے،  اِس کے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوں   گے، اِس سے پہلے کھانا شُروع نہیں   کریں   گے ،  عاجِزانہ اندازمیں   تحفے اور نذرانے پیش کریں   گے۔ تواضُع کرتے ہوئے اِس کے سامنے اپنے آپ کو چھوٹا (مَثَلاً خادِم وغلام)  ظاہِر کریں   گے،  خرید و فَروخت اور مُعامَلات میں   اِس سے مُرَوَّت بَرتیں   گے ،  اس کو چیزیں   عُمدہ کوالٹی کی اور وہ بھی سَستی یامُفْت دیں   گے ۔اس کے کاموں   میں   اس کی عزّت کرتے ہوئے جُھک جائیں   گے۔لوگوں   کے اس طرح کے عقیدت بھرے اندازسے نَفْس کو بَہُت زیادہ لذَّت حاصل ہوتی ہے اور یہ وہ لذَّت ہے جو تمام خواہِشات پر غالِب ہے،  اِس طرح کی عقیدت مندیوں   کی لذَّتوں   کے سبب گناہوں   کا چھوڑنا اُسے معمولی بات معلوم ہوتی ہے کیوں   کہ’’ حُبِّ جاہ  ‘‘ کے مریض کونَفْس گناہ کروانے کے بجائے اُلٹا سمجھاتاہے کہ دیکھ گناہ کریگا تو عقیدتمندآنکھیں   

Index