میں نے بھائی کے پا س آکر کہا کہ میرا ارادہ حج کا نہیں ہے۔ اُس نے مجھے بَہُت سمجھایا اور حج کے فضائل بتائے کہ حاجی ایسی حالت میں لوٹتا ہے کہ اُس پر کوئی گناہ نہیں رَہتا وغیرہ وغیرہ۔مگر میں نے بہ اِصرار اپنے کپڑے، اِحرام کی چادریں اور جو سامان میرے ساتھ تھا جس میں چھ سودِرہم نَقد بھی تھے سب لیکر چل دیا بازار سے 100 دِرہم کا آٹا اور100دِرہم کاکپڑا خریدا اور باقی 400 دِرہم آٹے میں چُھپا دیئے اور ساداتِ کرام کے گھر پہنچا اور سب سامان کپڑے اور آٹا وغیرہ اُن کوپیش کردیا۔ اُس عورت نے اللہ تَعَالٰی کا شکر ادا کیا اور اِس طرح دُعا دی: اے اِبنِ سُلَیمان! اللہ عَزَّ وَجَلَّ تیرے اَگلے پچھلے سب گناہ مُعاف کرے اور تجھے حج کا ثواب اور اپنی جنَّت میں جگہ عطا فرمائے اور اِس کا ایسا بدلہ عطا کرے جو تجھ پر بھی ظاہِر ہوجائے۔ ‘‘ سب سے بڑی لڑکی نے دُعا دی: ’’ اللہ تَعَالٰی تیرا اَجر دُگنا کرے اور تیرے گناہ مُعاف فرمائے۔ ‘‘ دوسری نے اِس طرح دُعا دی: ’’ اللہ تَعَالٰی تجھے اس سے بَہُت زِیادہ عطا فرمائے جتنا تُو نے ہمیں دیا۔ ‘‘ تیسری نے دُعا دیتے ہوئے کہا: ’’ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمارے ناناجان رَحْمتِ عالمیان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ تیرا حشْرکرے۔ ‘‘ چوتھی نے جو سب سے چھوٹی تھی اُس نے یوں دُعا دی: ’’اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! جس نے ہم پر اِحْسان کیا تو اس کا نِعمَ البَدَلاُس کو جلدی عطا کر اور اس کے اَگلے پچھلے گناہ مُعاف فرما ۔ ‘‘
حُجّاج کا قافِلہ روانہ ہوگیا اورمیں اُس کی واپَسی کے انتِظار میں کوفے ہی میں مجبو راً پڑا رہا۔ یہاں تک کہ حاجیوں کی واپَسی شروع ہو گئی جُوں ہی حُجّاج کاایک قافِلہ میری آنکھوں کے سامنے آیااپنی حج کی سَعادت سے مَحرومی پر میرے آنسو نکل آئے۔میں ان سے دعائیں لینے کیلئے آگے بڑھا، جب ان سے ملاقات کر کے میں نے کہا: ’’اللہتَعَالٰی آپ حضرات کاحج قَبول فرمائے اورآپ کے اَخراجات کا بہترین بَدَل عطا فرمائے ۔ ‘‘ اُن میں سے ایک حاجی نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ دُعا کیسی؟ میں نے کہا: ’’ایسے غمزدہ شخص کی دُعا جو دروازے تک پہنچ کرحاضِری سے مَحروم رَہ گیا! ‘‘ وہ کہنے لگا: بڑے تعجُّب کی بات ہے کہ آپ وہا ں جانے سے انکار کرتے ہیں ! کیا آپ ہمارے ساتھ عَرَفات کے میدان میں نہیں تھے؟ کیا آپ نے ہمارے ساتھ شیطان کو کنکریاں نہیں ماری تھیں ؟ اور کیا آپ نے ہمارے ساتھ طواف نہیں کئے؟ میں اپنے دِل میں سوچنے لگا کہ یقینا یہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا خصوصی لُطف وکَرَم ہے۔
اِتنے میں میرے شہر کے حاجیوں کا قافِلہ بھی آپہنچا۔ میں نے اُن سے بھی کہا کہ’’ اللہ تَعَالٰی آپ خوش نصیبوں کی سَعی مَشکور فرمائے اورآپ کا حج قَبول کرے۔ ‘‘ وہ بھی حیران ہو کر کہنے لگے: آپ کو کیا ہو گیا ہے! یہ اَجْنَبِیَّت کیسی ! ! کیا آپ عَرَفات میں ہمارے ساتھ نہ تھے؟ کیا ہم نے مِل جُل کر رَمْیِ جَمرات نہیں کی تھی؟ اُن میں سے ایک حاجی صاحِب آگے بڑھے اور میرے قریب آکرکہنے لگے کہ بھائی! انجان کیوں بنتے ہیں ! ہم مکّے مدینے میں اکٹّھے ہی تو تھے ! یہ دیکھئے! جب ہم روضۂ اَطہر کی زِیارت کر کے بابِ جبرئیل سے باہَر آرہے تھے تو اُس وَقْت بھِیڑ کی وجہ سے آپ نے یہ تھیلی مجھے بَطورِ اَمانت دی تھی جس کی مُہرپرلکھا ہواہے: مَنْ عَامَلَنَا رَبِحَ یعنی ’’جو ہم سے مُعامَلہ کرتا ہے نَفْع پاتاہے۔ ‘‘ یہ لیجئے اپنی تھیلی! حضرتِ رَبِیْععلیہ رَحمَۃُ اللہ البدیع فرماتے ہیں کہ خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم! میں نے اُس تھیلی کو اِس سے پہلے کبھی دیکھا بھی نہ تھا، خیرمیں نے تھیلی لے لی۔ عشا کی نَماز پڑھ کر اپنا وظیفہ پورا کیا اور لیٹ گیااور سوچتا رہاکہ آخِر قِصَّہ کیا ہے! اِسی میں نیند نے گھیر لیا، میری ظاہری آنکھ تو کیا بند ہو ئی، دل کی آنکھ کُھل گئی اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ