فیضان رمضان

ئے گی ۔ مذکورہ طریقے پر ناک سے گہرا سانس لیکر ممکن حد تک روک رکھنے کے  بعد منہ سے خارِج کرنا صحت کیلئے انتہائی مفید ہے۔ دن بھر میں  جب جب موقع ملے بالخصوص کھلی فضا میں  روزانہ چند بار تو ایسا کر ہی لینا چاہئے۔ مجھے ( یعنی سگِ مدینہ  عفی عنہ کو)  ایک سن رَسیدہ(یعنی بوڑھے)  حکیم صاحِب نے بتا یا تھا کہ میں  سانس لینے کے  بعد آدھے گھنٹے تک ( یا کہا ) دو گھنٹے تک ہوا کو اندر روک لیتا ہوں اور اِس دَوران اپنے وِردو وَ ظائف بھی پڑھ سکتا ہوں ۔ بقول اُن حکیم صاحب کے  سانس روکنے کے  ایسے ایسے مشاق (یعنی مشق کر کے  ماہر ہو جا نے والے لوگ)  بھی دنیا میں  پائے جا تے ہیں کہ صبح سانس لیتے ہیں تو شام کو نکالتے ہیں !

استنجا  خانے مسجد سے کتنی دُور ہونے چاہئیں ؟:

بارگاہِ رضویت میں  سوال ہوا کہ نمازیوں کیلئے اِستنجا  خانے مسجِد سے کتنی دُور بنانے چاہئیں ؟ اِس پر میرے آقا اعلٰی حضرت امامِ اَہلِ سنّت مجدِّدِ دین وملّت مولانا شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن نے جواباً ارشاد فرمایا:  مسجِد کو بو سے بچانا واجب ہے وَ لہٰذا مسجِد میں  مٹی کا تیل جلانا حرام،  مسجدمیں  دِیا سلائی ( یعنی بد بودار بارُود والی ماچس کی تیلی)  سلگانا حرام،  حتّٰی کہ حدیث میں  ارشاد ہوا:  مسجِد میں  کچا گوشت لے جا نا جا ئز نہیں ۔ (اِبن ماجہ ج۱ ص۴۱۳ حدیث ۷۴۸)  حالانکہ کچے گوشت کی بو بہت خفیف (یعنی ہلکی)  ہے۔ تو جہاں سے مسجِد میں  بو پہنچے وہاں تک (اِستنجا  خانے بنانے کی)  ممانعت کی جا ئے گی۔(فتاوٰی رضویہ ج ۱۶ص ۲۳۲)  کچے گوشت کی بد بو ہلکی ہوتی ہے جب یہ بھی مسجِد میں  لے جا نا جا ئز نہیں تو کچی مچھلی لے جا نا بَدَرَجَۂ اَولیٰ ناجا ئز ہوگا کیوں کہ اس کی بو گوشت سے زیادہ تیز ہوتی ہے بلکہ بعض اوقات پکانے والوں کی بے احتیاطی کے  سبب اِس کا سالن کھانے سے ہاتھ اور مُنہ میں  ناگوار بو ہو جا تی ہے ۔ ایسی صورت میں  بو دُورکئے بغیر مسجِد میں  نہ جا ئے۔اِستنجا  خانوں کی جب صفائی کی جا تی ہے اُس وَقت بد بو کافی پھیلتی ہے لہٰذا (اِستنجا خانے اور مسجِد کے  درمیان) اتنا فاصلہ رکھنا ضروری ہے کہ صفائی کے  موقع پر بھی بدبو  مسجِد میں  داخل نہ ہو سکے ۔ اِستنجا  خانے اِحاطۂ مسجِد میں  کھلتے ہوں تو ضرورتاً دیوار پاٹ کر باہر کی جا نب دروازے نکال کر بھی بدبو سے مسجِد کو بچایا جا سکتا ہے ۔

اپنے لباس وغیرہ پر غور کرنے کی عادت بنائیے:

مسجِد میں   بدبو  لے جا نا حرام ہے، نیز ہر طرح کے  بدبو والے شخص کا داخِل ہونا بھی حرام ہے ۔مسجِد میں  کسی تنکے  سے خلال بھی نہ کریں کہ جو پابندی سے ہر کھانے کے  بعد اِس کے  عادی نہیں ہوتے خلال کرنے سے ان کے  دانتوں سے بد بو نکلتی ہے۔ معتکف فنائے مسجِد میں  بھی اتنی دُور دانتوں کا خلال کرے کہ بدبو اصلِ مسجِد میں  داخل نہ ہو۔ بد بودار زَخم والا یا وہ مریض جس نے پیشاب یا پاخانے کی تھیلی (Stool Bag Urion Bag)  لگائی ہوئی ہے وہ مسجِد میں  داخل نہ ہوں ۔ اسی طرح لیبارٹری ٹیسٹ کروانے کیلئے لی ہوئی خون یا پیشاب کی شیشی،  ذَبیحہ کے  بوقتِ ذَبح نکلے ہوئے خون سے آلود کپڑے وغیرہ کسی چیز میں  چھپا کر بھی مسجِد کے  اندر نہیں لے جا  سکتے چنانچِہ فقہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام فرماتے ہیں :   ’’ مسجِد میں  نجا ست لے کرجا نا اگر چِہ اس سے مسجِد آلود ہ نہ ہو یا جس کے  بدن پر نجا ست لگی ہو اُس کو مسجِد میں  جا نا منع ہے۔ ‘‘  (رَدُّ الْمُحتار ج۲ ص۵۱۷)  مسجِد میں  کسی برتن کے  اندر پیشاب کرنا یا فصد کا خون لینا (یعنی رگ کھول کر فاسد خون نکالنا،  ٹیسٹ کیلئے سرنج کے  ذَرِیعے خون نکالنا)  بھی جا ئز نہیں ۔ (دُرِّ مُختار ج۲ ص۵۱۷)  پاک بدبو چھپی ہوئی ہو جیسا کہ اکثر لوگوں کے  بدن میں  پسینے کی بد بو ہوتی ہے مگر لباس کے  نیچے چھپی ہوئی ہوتی ہے اور محسوس نہیں ہوتی تو اِس صورتمیں  مسجِد کے  اندر جا نے میں  کوئی حرج نہیں ۔ اسی طرح اگر رومال میں  پسینے وغیرہ کی بدبو ہے جیسا کہ گرمی میں  منہ کا پسینہ پونچھنے سے اکثر ہو جا تی ہے تو ایسا رومال مسجِد کے  اندر نہ نکالے ،  جیب ہی میں  رہنے دے،  اگرعمامہ یا ٹوپی اُتارنے سے پسینے یامیل کچیل وغیرہ کی بدبو آتی ہے تو مسجِد میں  نہ اُتارے ۔ چنانچہ اِس کی مثال دیتے ہوئے مُفَسّرِشہیرحکیمُ الْاُمَّت حضر  ت مفتی احمد یار خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّانفرماتے ہیں :  ’’  ہاں اگر کسی صورت سے مِٹی کے  تیل کی بد بو اُڑادی جا ئے یا اِس طرح لیمپ وغیرہ میں  بند کیا جا ئے کہ اس کی بد بو ظاہر نہ ہو تو (مسجِد میں  )  جا ئز ہے۔ ‘‘  (فتاوٰی نعیمیہ ص۴۹)  ہرمسلمان کو اپنے مُنہ،  بدن،  رومال،  لباس اور جوتی چپل وغیرہ پر غور کرتے رہنا چاہئے کہ اس میں  کہیں سے بد بُو تو نہیں آ رہی اور ایسا میلا کچیلا لباس پہن کر بھی مسجِد میں  نہ آئیں جس سے لوگوں کوگھن آئے۔ افسوس ! دُنیوی افسروں وغیرہ کے  پاس تو عمدہ لباس پہن کر جا ئیں اور اپنے پیارے پیارے پروردگار عَزَّوَجَلَّ کے  دربار میں  حاضری کے  وَقت یعنی نَماز میں  نفاست( صفائی اور پاکیزگی وغیرہ)  کا کوئی اِہتمام نہ کریں ،  مسجِد میں  آتے وقت انسان کم ازکم وہ لباس تو پہنے جو دعوتوں میں  پہن کر جا تا ہے،  مگر اس بات کا خیال رکھئے کہ لباس شریعت و سنّت کے  مطابِق ہو۔

سرکارِ مدینہ،  سلطانِ باقرینہ ،  قرارِ قلب وسینہ ،  فیض گنجینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ با قرینہ ہے:   ’’ مسجدوں کو بچوں اور پاگلوں اور خریدو فروخت اور جھگڑے اور آواز بلند کرنے اور حُدود قائم کرنے اور تلوار کھینچنے سے بچاؤ ۔ ‘‘ ( اِبن ماجہ ج ۱ ص ۴۱۵ حدیث ۷۵۰ )

  مسجد میں  بچے کو لانے کی ممانعت:

                                         بچے اور پاگل کو جن سے نجا ست کا گمان ہو مسجد میں  لے جا نا حرام ہے ورنہ مکروہ،  جو لوگ جوتیاں مسجِد کے  اندر لے جا تے ہیں ان کو اِس کا خیال رکھنا

Index