فیضان رمضان

کے  سبب،   ‘‘  پھر پوچھا:   ’’ آپ کی قَبْرسے مشک کی خوشبو کیوں آرہی ہے؟ ‘‘ تو جواب دیا:   ’’ یہ میری تلاوت اور رَوزوں میں  پیاس کی خوشبو ہے۔ ‘‘  (حِلیَۃُ الاَوْلِیاء ج۶ص۲۶۶رقم۸۵۵۳)  اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے  صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجا ہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

امام بخاری کی قَبر کی مشکبار مٹّی:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اسی طرح حضرتِ سَیِّدُنا امام بخاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ البَارِیکی قبر انور کی مٹی سے بھی مشک کی خوشبو آتی تھی۔ بار بار قَبْر پر مٹی ڈالی جا تی تھی مگر لوگ خوشبو کی وجہ سے تَبَرُّکاً اُٹھالے جا تے تھے۔  (طبقاتُ الشّافعیۃ للسبکی ج۲ص۲۳۳)

صاحِبِ دلائلُ الخیرات کی قبر سے عنبر کی خوشبو آتی تھی:

صاحب دلائل الخیرات حضرت شیخ سیِّد محمد بن سلیمان جزولیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکی قبرمنور بھی معطر تھی اور اُس سے کستوری کی خوشبو کی لپٹیں آتی تھیں کیونکہ آپ زندگی میں  کثرت سے دُرُود شریف پڑھا کرتے تھے۔ انتقال کے  77برس  کے  بعدکسی سبب سے ـ ’’ سوس ‘‘  سے  ’’ مراکش ‘‘  میں  مُنْتَقِل کرنے کے  لیے جب قبرکشائی کی گئی تو آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکا جسم مبارَک بالکل صحیح و سالم تھا حتّٰی کہ کفن تک بوسیدہ نہیں ہوا تھا۔ وفات سے قبل آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے داڑھی مبارَک کا خط بنوایا تھا وہ ایسے ہی تھا جیسے آج ہی بنوایا ہے،  یہاں تک کہ کسی نے امتحاناً آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکے  رخسارِ مبارَک پر انگلی رکھ کر دبایا تو اُس جگہ سے خون ہٹ گیا اور جہاں دبایا تھا وہ جگہ سفید سی ہو گئی یعنی ز ندہ انسانوں کی طرح خون بھی جسم میں  رَواں دَواں تھا!  (مَطالِعُ الْمَسَرَّات ص۴)

جبیں میلی نہیں ہوتی بدن میلا نہیں ہوتا

غلامانِ محمد کا کفن میلا نہیں ہوتا

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

(۸) رَمَضان وشش عید کے  روزوں کی بَرَکت:

حضرت سَیِّدُنا سُفیان ثوریعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیفرماتے ہیں :  ایک بار میں  تین سال تک مکّۂ مکرّمہ  زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں  مقیم رہا۔ ایک مکی شخص روزانہ دوپہر کے  وقت طوافِ کعبہ کرتا،  دو رکعت واجب الطواف ادا کرتا پھر مجھے سلام کرتا اور اپنے گھر چلا جا تا۔ مجھے اُس نیک بندے سے مَحَبَّت ہو گئی۔ وہ سخت بیمار ہو گیا میں  عیادت کے  لئے حاضر ہوا تو اُس نے مجھے وصیت کی:   ’’ جب میں  فوت ہو جا ؤں تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِاپنے ہاتھوں سے غسل دے کر میری نمازِ جنازہ ادا فرمائیے،  مجھے تنہا نہ چھوڑئیے بلکہ ساری رات میری قَبْر کے  پاس تشریف فرما رہئے نیز مُنکَر نکیر کی آمد کے  وقت مجھے تلقین فرمائیے گا۔ ‘‘  میں  نے ہامی بھر لی۔ چنانچہ اس کے  انتقال کے  بعد میں  نے حسبِ وصیَّت عمل کیا،  قَبْر کے  پاس حاضر تھا کہ مجھے اُونگھ آ گئی ،  میں  نے ہاتف غیبی کی آواز سنی:   ’’ اے سفیان (رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ) ! اِس کو تیری تلقین و قربت کی کوئی حاجت نہیں ،  اِس لئے کہ ہم نے خود ہی اِس کواُنس دیا اور تلقین کی۔ ‘‘  میں  نے کہا:  اِس کو کس عمل کے  سبب یہ رُتبہ ملا؟ آواز آئی:   ’’ رَمَضان ُ الْمبارَک اور اس کے  بعد شوّالُ المُکرَّم کے  چھ روزے رکھنے کی برکت سے۔ ‘‘  حضرتِ سَیِّدُنا سفیان ثوریعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیفرماتے ہیں :  اُس ایک رات میں  یہی خواب میں  نے تین۳ بار دیکھا۔ میں  نے بارگاہِ خدا وندی عَزَّوَجَلَّ میں  عرض کی:  یااللہ عَزَّوَجَلَّ! مجھے بھی اپنے فضل و کرم سے ان روزوں کی توفیق عطا فرما۔ (قَلیوبی ص۱۴)  اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے  صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجا ہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

(۹) رَمَضان کا چاند:

ایک مرتبہ رَمضان شریف کے  چاند کے  بارے میں  کچھ اختلاف پیدا ہو گیا،  بعض لوگ کہتے تھے کہ رات کو چاند ہوگیا اور بعض کہتے تھے کہ نہیں ہوا۔ حضور غوثِ اعظمعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کی والدۂ ماجدہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہانے ارشاد فرمایا:   ’’ میرا یہ بچہ( یعنی غوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم )  جب سے پیدا ہوا ہے۔ رَمضان شریف کے  دنوں میں  سارا دن دُودھ نہیں پیتا اور آج بھی چونکہ عبدالقادِر عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الظّاہِرنے دن کے  وقت دودھ نہیں پیا اس لیے غالِباً رات کو چاند ہو گیا ہے۔ ‘‘  چنانچہ پھر تحقیق کرنے پر ثابت ہوا کہ چاند ہو گیا ہے۔ (بَہْجَۃُ الْاَسْرار ص۱۷۲)  اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے  صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجا ہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم

 

Index