فیضان رمضان

پئے تاجدارِ حرم یاالٰہی          (وسائلِ بخشش ص ۱۱۰)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

قبر کا بھیانک منظر!:

منقول ہے:  امیرُالْمُؤمِنِینحضرتِ مولائے کائنات،  علیُّ المُرتَضٰی شیر خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمایک بار زِیارتِ قبور کے  لئے کوفے  کے  قبر ستان تشریف لے گئے، وہاں ایک تازہ قَبرپر نظر پڑی، تو دل میں  اُس کے  حالات معلوم کرنے کی خواہش ہوئی،  چنانچہ بارگاہِ خداوندیعَزَّوَجَلَّمیں  عرض گزار ہوئے:   ’’  یااللہ عَزَّوَجَلَّ!اِس میت کے  حالات مجھ پر مُنْکَشِف (یعنی ظاہر )   فرما۔ ‘‘  اللہ عَزَّوَجَلَّکی بارگاہ میں  آپ کی اِلتجا  فوراً مسموع ہوئی (یعنی سنی گئی ) اور دیکھتے ہی دیکھتے آپ کے  اور اُس مردے کے  درمیان جتنے پردَے حائل تھے تمام اٹھادئیے گئے!اب ایک قبر کا بھیانک منظر آپ کے  سامنے تھا!کیا دیکھتے ہیں کہ مردہ آگ کی لپیٹ میں  ہے اور رو رو کر آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمسے اِس طرح فریاد کررہا ہے:

یَاعَلِیُّ! اَنَا غَرِیْقٌ فِی النَّارِ وَحَرِیْقٌ فِی النَّار۔

             یعنی یاعلی ! میں  آگ میں  ڈوبا ہوا ہوں اور آگ میں  جل رہا ہوں ۔ قَبْرکے  دَہشتناک منظر اور مردے کی درد نا ک پکارنے حیدرِ کرار کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکو بے قرار کردیا۔ آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنے اپنے رَحمت والے پروَردگارعَزَّوَجَلَّکے  دربار میں  ہاتھ اُٹھادئیے اور نہایت عاجِزی کے  ساتھ اُس مَیِّت کی بخشِش کیلئے درخواست پیش کی ۔ غیب سے آواز آئی:   ’’  اے علی(کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم) !  اِس کی سِفارش مت کرو۔کیوں کہ یہ شخص رَمَضانُ الْمبارَک کی بے حرمتی کرتا، رَمَضانُ الْمبارَک میں  بھی گناہوں سے بازنہ آتا تھا، دن کو روزے تو رکھ لیتا مگر راتوں کو گناہوں میں  مبتلارہتا تھا۔ ‘‘ مولائے کائنا ت علیُّ المُرتَضٰی شیر خداکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمیہ سن کر اور بھی رنجیدہ ہوگئے اور سجدے میں  گر کر رو رو کر عرض کرنے لگے:  یااللہ عَزَّوَجَلَّ!میری لاج تیرے ہاتھ میں  ہے، اِس بندے نے بڑی اُمید کے  ساتھ مجھے پکارا ہے ،  میرے مالک عَزَّوَجَلَّ!  تُو مجھے اِس کے  آگے رُسوا نہ فرما،  اِ س کی بے بسی پر رَحم فرمادے اور اِس بے چارے کو بخش دے ۔حضرت علیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمرو رو کر مناجا ت کررہے تھے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّکی رَحمت کا دریا جوش میں  آگیا اور ندا آئی:  ’’  اے علی !( کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم)  ہم نے تمہاری شکستہ دِلی کے  سبب اِسے بخش دیا ۔  ‘‘  چنانچہ اُس مردے پر سے عذاب اُٹھا لیا گیا۔            (انیسُ الْواعِظین ص۲۵، ۲۶)

کیوں نہ مشکل کشا کہوں تم کو!

تم نے بگڑی مری بنائی ہے

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

مردوں سے گفتگو:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ مولائے کائنات،  علیُّ المُرتَضٰی شیر خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کی عظمت و شان کے  کیا کہنے ! اللہ عَزَّوَجَلَّکی عطا سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اہلِ قبور سے گفتگو فرمالیا کرتے تھے ۔ ایک اور حکایت پیش خدمت ہے:  چنانچہمشہور تابعی بزرگ حضر تِ سَیِّدُنا سعید بن مسیب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرما تے ہیں :  ایک بار ہم امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ مولائے کائنات،  علیُّ المُرتَضٰی شیر خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے  ہمراہ مدینۂ منورہ کے  قبرستان گئے ۔ حضرتِ مولیٰ علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے قبر والوں کوسلام کیا اور فرمایا:  اے قبر والو!تم اپنی خبر بتاؤ گے یا ہم تمہیں بتائیں ؟ سَیِّدُناسعید بن مُسیَّب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ہم نے قبر سے  ’’ وَ عَلَیْکَ السَّلَامُ وَرَحمَۃُ اللہ وَبَرَکٰتُہٗ  ‘‘  کی آواز سنی اور کوئی کہنے والا کہہ رہاتھا:   یا امیرَالْمُؤمِنِین!آپ ہی خبر دیجئے کہ ہمارے مرنے کے  بعد کیا ہوا؟ حضرتِ مولیٰ علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا : سن لو! تمہا رے مال تقسیم ہو گئے،  تمہاری بیویوں نے دوسر ے نکاح کر لئے،  تمہاری اَولاد یتیموں میں  شامل ہوگئی ،  جس مکان کو تم نے بہت مضبوط بنایا تھا اُس میں  تمہارے دشمن آباد ہو گئے۔ اب تم اپنا حال سناؤ۔ یہ سن کر ایک قَبْر سے آواز آنے لگی: یا امیرَالْمُؤمِنِین! ہمارے کفن پھٹ کرتارتار ہوگئے ،  ہمارے بال جھڑ کر مُنْتَشِر ہوگئے،  ہماری کھالیں ٹکڑے ٹکڑ ے ہوگئیں ہماری آنکھیں بہ کر رُخساروں پر آ گئیں اور ہما ر ے نتھنوں سے پِیپ بہ رہی ہے اور ہم نے جو کچھ آگے بھیجا (یعنی جیسے عمل کئے)  اُسی کو پایا ،  جو کچھ پیچھے چھو ڑا اُس میں  نقصان ہوا۔    (شَرْحُ الصُّدُورص۲۰۹،  ابن عَساکِرج۲۷ص۳۹۵ )

 رَمضان کی راتوں میں  کھیل کود:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! گزشتہ دونوں حکایات میں  ہمارے لئے عبرت کے  بے شمار مَدَنی پھول ہیں ۔ زندہ انسان خوب پھدکتا ہے مگر جب موت کا شکار ہوکر قبر میں  اتار دیا جا تا ہے ،  اُس وقت آنکھیں بند ہونے کے  بجا ئے حقیقت میں  کھل چکی ہوتی ہیں ۔ اچھے اعمال اور راہِ خدا ئے ذُوالجلال عَزَّوَجَلَّ  میں  دیا ہوا مال تو کام آتا ہے مگر جو کچھ دَھن دولت پیچھے چھوڑ آتا ہے اُس میں  بھلائی کا اِمکان نہ ہونے کے  برابر ہوتا ہے ،  وُرثا سے یہ اُمید کم ہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے مرحوم عزیزکی

Index