پڑھوانے والا کہہ دے کہ کچھ نہیں دوں گا۔پھر بعد میں حافظ صاحب کی خدمت کردیں تو حرج نہیں کہ بخاری شریف کی پہلی حدیثِ مبارَک میں ہے: اِنّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّات۔ یعنی اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔ ( بُخاری ج۱ص۶حدیث۱)
تلاوت و ذکر و نعت کی اُجرت حرام ہے:
میرے آقا اعلٰی حضرت، امامِ اہل سنت مولانا شاہ امام احمدرضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنکی بارگاہ میں اُجرت دے کرمیت کے ایصالِ ثواب کیلئے خَتْمِ قرٰان و ذِکرُ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کروانے سیمُتَعَلِّق جب اِستفتا پیش ہوا تو جوا باً ارشاد فرمایا: ’’ تلاوتِ قراٰن وذکرِ الٰہی عَزَّ وَجَلَّ پر اُجرت لینا دینا دونوں حرام ہے، لینے دینے والے دونوں گناہ گار ہوتے ہیں اور جب یہ فعل حرام کے مرتکب ہیں تو ثواب کس چیز کا اَموات (یعنی مرنے والوں ) کو بھیجیں گے؟گناہ پر ثواب کی اُمید اور زیادہ سخت واَشد(یعنی شدید ترین جرم) ہے۔اگر لوگ چاہیں کہ ایصالِ ثواب بھی ہو اور طریقۂ جا ئزہ شرعیہ بھی حاصل ہو (یعنی شرعاً جا ئز بھی رہے) تو اِس کی صورت یہ ہے کہ پڑھنے والوں کو گھنٹے دو گھنٹے کے لئے نوکر رکھ لیں اور تنخواہ اُتنی دیر کی ہرشخص کی مُعَیَّن(مقرر) کردیں ۔مَثَلاً پڑھوانے والا کہے: ’’ میں نے تجھے آج فلاں وَقت سے فلاں وَقت کیلئے اِ س اُجرت پر نوکر رکھا (کہ) جو کام چاہوں گا لوں گا۔ ‘‘ وہ کہے : ’’ میں نے قبول کیا۔ ‘‘ اب وہ اُتنی دیر کے واسطے اَجیر(یعنی ملازِم) ہوگیا، جو کام چاہے لے سکتا ہے اس کے بعد اُس سے کہے فلاں مَیت کے لئے اِتنا قراٰنِ عظیم یا اِس قدر کلِمۂ طیبہ یا دُرُود پاک پڑھ دو۔ یہ صورت جواز (یعنی جا ئز ہونے) کی ہے۔ ‘‘
(فتاویٰ رضویہ ج۲۳ص۵۳۷)
اِ س مبارَک فتوے کی روشنی میں تراویح کیلئے حافظ صاحب کی بھی ترکیب ہوسکتی ہے ۔ مَثَلاً مسجد کمیٹی والے اُجرت طے کرکے حافظ صاحب کو ماہِ رَمَضانُ المبارَک میں نماز عشا کیلئے امامت پر رکھ لیں اور حافظ صاحب بِالتَّبَع یعنی ساتھ ہی ساتھ تراویح بھی پڑھا دیا کریں کیوں کہ رَمَضانُ المبارَک میں تراویح بھی نمازِ عشا کے ساتھ ہی شامل ہوتی ہے۔ یا یوں کریں کہ ماہِ رَمَضان المبارَک میں روزانہ دویا تین گھنٹے کیلئے( مَثَلاًرات8تا11) حافظ صاحب کو نوکری کی آفر کرتے ہوئے کہیں کہ ہم جو کام دیں گے وہ کرنا ہوگا، تنخواہ کی رقم بھی بتادیں ، اگر حافظ صاحب منظور فرمالیں گے تووہ ملازم ہو گئے ۔اب روزانہ حافظ صاحب کی ان تین گھنٹوں کے اندر ڈیوٹی لگادیں کہ وہ تراویح پڑھادیاکریں ۔ یادرکھئے! چاہے امامت ہو یا مؤَذِّنی ہو یا کسی قسم کی مَزدوری جس کا م کیلئے بھی اِجا رہ کرتے وقت یہ معلوم ہو کہ یہاں اُجرت یاتنخواہ کا لین دَین یقینی ہے توپہلے سے رقم طے کرنا واجِب ہے، ورنہ دینے والا اور لینے والا دونوں گنہگار ہوں گے۔ ہاں جہاں پہلے ہی سے اُجرت کی مقررہ رقم معلوم ہومَثَلاًبس کاکرایہ، یابازارمیں بوری لادنے ، لے جا نے کی فی بوری مزدوری کی رقم وغیرہ۔ تواب باربارطے کرنے کی حاجت نہیں ۔یہ بھی ذِہن میں رکھئے کہ جب حافظ صاحب کو (یاجس کوبھی جس کام کیلئے) نوکر رکھا اُس وقت یہ کہہ دینا جا ئز نہیں کہ ہم جو مناسب ہوگا دے دیں گے یا آپ کو راضی کر دیں گے ، بلکہ صَراحَۃً یعنی واضح طورپر رقم کی مقدار بتانی ہوگی، مَثَلاًہم آپ کو12ہزار روپے پیش کریں گے اور یہ بھی ضروری ہے کہ حافظ صاحب بھی منظور فرمالیں۔اب بارہ ہزاردینے ہی ہوں گے۔ یاد رہے! مسجد کے چندے سے دی جا نے والی اُجرت وہاں کے عرف سے زائد نہیں ہونی چاہئے ، پہلے سے موجود امام صاحب دل برداشتہ نہ ہوں اِس کا بھی خیال رکھا جا ئے، پورے ماہِ رَمضان میں نَمازِ عشا کی امامت کی چھٹی کے سبب امام صاحب کو مسجد کے چندے سے اُس ماہ کی عشا کی نمازوں کی تنخواہ دے سکتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں اسی طرح کا عرف یعنی معمول جا ری ہے۔ہاں حافظ صاحب کومطالبے کے بغیر اپنی مرضی سے طے شدہ سے زائد مسجد کے چندے سے نہیں بلکہ اپنے پلے سے یا اسی مقصد کے لیے جمع کی ہوئی رقم دے دیں تب بھی جا ئز ہے۔جو حافظ صاحبان ، یانعت خوان بغیر پیسوں کے تراویح ، قراٰن خوانی یا نعت خوانی میں حصہ نہیں لے سکتے وہ شرم کی وجہ سے ناجا ئز کام کا ارتکاب نہ کریں۔میرے آقااعلٰی حضرترَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق عمل کرکے پا ک روزی حاصل کریں ۔اور اگر سخت مجبوری نہ ہو تو حیلے کے ذَرِیعے بھی رقم حاصِل کرنے سے گریز کریں کہ جس کاعمل ہوبے غرض اُس کی جزاکچھ اور ہے ۔ ایک امتحان سخت امتحان یہ ہے کہ جو رقم قبول نہیں کرتااُس کی کافی واہ !واہ! ہوتی ہے۔یہاں اپنے آپ کو حب جا ہ اور ریاکاری سے بچاناضروری ہے، بلا حاجت دوسروں سے تذکرہ کرنے سے بچنا اور دعائے اخلاص کرتے رہنا ایسے مواقع پر مفید ہوتا ہے۔ ؎
مرا ہر عمل بس ترے واسطے ہو کر اخلاص ایسا عطا یاالٰہی (وسائل بخشش ص۱۰۵)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
جہاں تراویح میں ایک بار قراٰنِ پاک کی تلاوت کی جا ئے وہاں بہتر یہ ہے کہ ستائیسویں شب کو ختم کریں ، رقت و سوز کے ساتھ اِختتام ہو اور یہ اِحساس دل کو تڑپا کر رکھ دے کہ میں نے صحیح معنوں میں قراٰنِ پاک پڑھا یاسنا نہیں ، کوتاہیاں بھی ہوئیں ، دل جمعی بھی نہ رہی، اِخلاص میں بھی کمی تھی۔ صد ہزار افسوس