دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کے مطبوعہ 48 صَفحات پر مشتمل رسالے ، ’’ زندہ بیٹی کنویں میں پھینک دی ‘‘ صَفْحَہ 7تا 8 پر ہے: سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے چار فرزند ہونے کااگر چہ ’’ خزائن العرفان ‘‘ میں ذِکر ہے مگر اِس میں اختلاف ہے ، تین شہزادوں کابھی قول ہے اور دو کا بھی ۔ چنانچہ ’’ تذکرۃ الانبیاء ‘‘ صَفْحَہ 827پر ہے: آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کے تین بیٹے تھے : قاسم ، ابراہیم ، عبدُ اللّٰہ۔ خیال رہے کہ طیب، مطیب، طاہر اورمطہر اِنہیں (یعنی حضرتِ عبدُ اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ) کے اَلقاب تھے ، یہ کوئی علیٰحدہ بیٹے نہیں تھے۔ (تذکرۃ الانبیاء ص۸۲۷) حضرتِ علامہ عبد المصطَفٰے اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْقَوِی ’سیرتِ مصطَفٰے ‘‘ صَفْحَہ 687پر لکھتے ہیں : اس بات پر تمام مؤرخین (مُ۔اَرْ۔رِخین) کا اِتفاق ہے کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی اولاد ِکرام کی تعداد چھ (تو یقینا) ہے۔ دو فرزند حضرتِقاسموحضرتِابراہیم(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَما) اور چار صاحبزادیاں حضرتِ زینب و حضرتِ رُقیہ و حضرتِ اُمِّ کلثوم و حضرتِ فاطمہ (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ) لیکن بعض مؤرخین نے یہ بیان فرمایا ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے ایک صاحبزادے عبدُاللّٰہ(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ) بھی ہیں جن کا لقب طیب و طاہر ہے۔ اس قول کی بنا پر حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی مقدس اولاد کی تعداد سات ہے یعنی تین صاحبزادگان اورچار صاحبزادیاں ۔ (سیرتِ مصطفی ص۶۸۷)
مُحمَّدنامی ایک آدمی سارا سال نَما زنہ پڑھتا تھا۔ جب رمضان شریف کا مُتَبَرّکمہینا آتا تو وہ پاک صاف کپڑے پہنتا اورپانچوں وَقت پابندی کے ساتھ نَماز پڑھتا اور سالِ گزشتہ کی قضا نمازیں بھی ادا کرتا۔ لوگوں نے اُس سے پوچھا: تو ایسا کیوں کرتا ہے؟اُس نے جواب دیا: یہ مہینارحمت، برکت ، توبہ اورمغفرت کا ہے، شاید اللہ تَعَالٰی مجھے میرے اِسی عمل کے سبب بخش دے۔ جب اُس کا انتقال ہوگیا تو کسی نے اُسے خواب میں دیکھ کر پوچھا: مَا فَعَلَ اللہ بِکَ؟یعنیاللہ تَعَالٰی نے تیرے ساتھ کیا معاملہ کیا؟اُس نے جواب دیا: ’’ میرے اللہ عَزَّوَجَلَّنے مجھے اِحترامِ رَمضان شریف بجا لانے کے سبب بخش دیا۔ (دُرَّۃُ النَّاصِحِین ص۸)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اللہ بے نیاز ہے:
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے ؟خدا ئے رَحمٰنعَزَّوَجَلَّماہِ رَمضان کے قدر دان پر کس دَرَجہ مہربان ہے کہ سال کے باقی مہینے چھوڑ کر صرف ماہِ رَمضان میں عبادت کرنے والے کی مغفرت فرمادی۔اِس حکایت سے کہیں کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ اب تو (مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ) ساراسال نمازوں کی چھٹی ہوگئی !! صرف رَمَضَانُ المُبارَکمیں روزہ نَماز کرلیا کریں گے اور سیدھے جنت میں چلے جا ئیں گے۔ پیارے اسلامی بھائیو! دراصل بخشنا یا عذاب کرنایہ سب کچھ اللہ تَعَالٰی کی مَشِیَّت پر موقوف ہے ، وہ بے نیاز ہے، اگر چاہے تو کسی مسلمان کو بظاہر چھوٹے سے نیک عمل پر ہی اپنے فضل سے بخش دے اور اگر چاہے تو بڑی بڑی نیکیوں کے باوجود کسی کو محض ایک چھوٹے سے گُناہ پر اپنے عدل سے پکڑلے۔پارہ3 سُوْرَۃُ الْبَقْرَہکی آیت نمبر284 میں ارشاد ِ ربِّ بے نیاز ہے:
فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُؕ-(پ۳، البقرۃ: ۲۸۴)
ترجَمۂ کنزالایمان: تو جسے چاہے گا (اپنے فضل سے اہلِ ایمان کو) بخشے گا اور جسے چاہے گا ( اپنے عدل سے) سزا دے گا۔
تو بے حساب بخش کہ ہیں بے شمار جرم
دیتا ہوں واسطہ تجھے شاہِ حجا ز کا
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!کوئی نیکی چھوڑنی نہیں چاہئے ، نہ جا نے اللہ عَزَّوَجَلَّکو کونسی نیکی پسند آجا ئے اور کوئی چھوٹے سے چھوٹا گناہ کرنا نہیں چاہئے کہ نہ جا نے کس گناہ پر اللہ تَعَالٰی ناراض ہوجا ئے اور اُس کا درد ناک عذاب گھیرلے۔ خلیفۂ اعلٰی حضرت ، فقیہ اَعظم سیدنا ابو یوسف محمد شریف محدث کوٹلوی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْقَوِی نقل فرماتے ہیں : ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّنے تین چیزوں کو تین چیزوں میں مَخْفی(یعنی پوشیدہ ) رکھا ہے، {۱} اپنی رِضا کو اپنی اِطاعت میں اور {۲} اپنی ناراضی کو اپنی نافرمانی میں اور {۳} اپنے اولیا کواپنے بَندوں میں ۔ ‘‘ (تَنبِیہُ الْمُغتَرِّیْن ص۵۱) یہ قول نقل کرنے کے بعد فقیہ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم فرماتے ہیں : ’’ لہٰذا ہر طاعت اور ہر نیکی کو عمل میں لانا چاہئے کہ معلوم نہیں کس نیکی پر وہ راضی ہوجا ئے اور ہر بدی سے بچنا چاہئے کیونکہ معلوم نہیں کس بدی پر وہ ناراض ہوجا ئے ۔خواہ وہ بدی کیسی ہی صغیر (یعنی چھوٹی) ہو۔مَثَلًا (بلا اجا زت) کسی کے تنکے کا خلال کرنا بظاہرایک معمولی سی بات ہے یا کسی ہمسایہ کی مٹی سے اُس کی اجا زت کے بغیرہاتھ دھونا گویا ایک چھوٹی سی بات ہے مگر ممکن ہے کہ اس بُرائی میں ہی حق تعالیٰ کی ناراضی مَخفی (یعنی چھپی ہوئی ) ہو تو ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں سے بھی بچنا چاہئے۔ ‘‘ (اَخلاق ُ الصّٰلِحِین ص۶۰)