فیضان رمضان

تو کسی کیلئے موت کا پیام لاتی ہے۔ لہٰذا آپ کی جسمانی کیفیات سے واقف آپ کا مخصوص طبیب ہی یہ طے کر سکتا ہے کہ آپ کو کون سانسخہ موافق آ سکتا ہے اور کون سا نہیں ۔

اِفطار کے  وقت دُعا قبول ہوتی ہے:

دو فرامینِ مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ: (1)  ’’ بے شک روزہ دار کے  لئے اِفطار کے  وَقت ایک ایسی دُعا ہوتی ہے جو رَد نہیں کی جا تی۔ ‘‘ ( ابنِ ماجہ ج۲ ص۲۵۰ حدیث ۱۷۵۳ )  (2)  ’’ تین شخصوں کی دُعا رَدّ نہیں کی جا تی {۱}  بادشاہِ عادِل کی اور  {۲}  روزہ دار کی بوقت اِفطار اور  {۳} مظلوم کی۔اِن تینوں کی دُعا اللہ عَزَّوَجَلَّبادَلوں سے بھی اُوپر اُٹھا لیتا ہے اور آسمان کے  دروازے اُس کیلئے کھل جا تے ہیں اور اللہ (عَزَّوَجَلَّ)  فرماتا ہے:  ’’ مجھے میری عزت کی قسم!میں  تیری ضرور مَدَد فرماؤں گااگرچہ کچھ دیر بعد۔ ‘‘  (اَیضاً ص ۳۴۹ حدیث ۱۷۵۲)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

ہم کھانے پینے میں  رَہ جا تے ہیں :

پیارے روزہ دارو! اَلْحَمْدُلِلّٰہِ اِفطَار کے  وَقت دعا قبول ہوتی ہے،  آہ! اِس قبولیت کی گھڑی میں  ہمارا نفس اِس موقع پر سخت آزمائش میں  پڑجا تا ہے ۔ کیونکہ اِس وَقت اکثر ہمارے آگے اَنواع واَقسام کے  پھلوں ،  کباب،  سموسوں ،  پکوڑوں کے  ساتھ ساتھ گرمی کا موسم ہو تو ٹھنڈے ٹھنڈے شربت کے  جا م بھی موجود ہوتے ہیں ،  اِدھر سورج غروب ہوا، اُدھر کھانوں اور شربتوں پر ہم ایسے ٹوٹ پڑتے ہیں کہ دُعا یادہی نہیں رہتی! دُعا تَو دُعا ہمارے کچھ اِسلامی بھائی اِفطَار کے  دَوران کھانے پینے میں  اس قَدَر مشغول ہوجا تے ہیں کہ ان کو نَمازِ مغرب کی پوری جماعت تک نہیں ملتی،  بلکہ مَعَاذَ اللہ بعض تو اِس قدر سستی کرتے ہیں کہ گھر ہی میں  اِفطار کرکے  وَہیں پر بغیر جماعت نماز پڑ ھ لیتے ہیں ۔ توبہ! توبہ!!

            جنت کے  طلب گارو ! اتنی بھی غفلت مت کیجئے!!نمازِ باجماعت کی شریعت میں  نہایت سخت تاکید آئی ہے ۔یاد رکھئے! بلا کسی صحیح شَرْعی مجبوری کے  مسجِد کی پنج وقتہ نماز کی پہلی جماعت ترک کردینا گناہ ہے۔

غذا سے اِفطار کے  بعد نماز کیلئے منہ صاف کرنا ضروری ہے:

بہتر یہ ہے کہ ایک آدھ کھجور سے اِفطار کر کے  فوراً اچّھی طرح مُنہ صاف کر لے اورنمازِ باجماعت میں  شریک ہوجا ئے ۔ آ ج کل مسجِد میں  لوگ پھل پکوڑے وغیرہ کھانے کے  بعداچھی طرح منہ صاف نہیں کرتے یوں ہی جماعت میں  شریک ہو جا تے ہیں حالانکہ غِذا کا معمولی ذرّہ یا ذائقہ بھی مُنہ میں  نہیں ہونا چاہئے کہ میرے آقا اعلٰی حضرت،  امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنفرماتے ہیں :  متعدد احادیث میں  ارشاد ہوا ہے کہ  ’’ جب بندہ نماز کو کھڑا ہوتا ہے فرشتہ اس کے  منہ پر اپنا منہ رکھتا ہے یہ جو پڑھتا ہے اِس کے  منہ سے نکل کر فرشتے کے  منہ میں  جا تا ہے اُس وقت اگر کھانے کی کوئی شے اُس کے  دانتوں میں  ہوتی ہے ملائکہ کو اُس سے ایسی سخت ایذ ا ہوتی ہے کہ اور شے سے نہیں ہوتی۔ ‘‘  حضورِ اکرم ، نورِ مجسّم ، شاہِ بنی آدم،  رسولِ مُحتَشَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:  جب تم میں  سے کوئی رات کو نَماز کیلئے کھڑا ہو تو چاہئے کہ مسواک کرلے کیونکہ جب وہ اپنی نماز میں  قرا ء ت(قرا۔ئَ ت)  کرتا ہے تو فرشتہ اپنا منہ اِس کے  منہ پر رکھ لیتا ہے اور جو چیز اِس کے  منہ سے نکلتی ہے وہ فرشتے کے  منہ میں  داخل ہوجا تی ہے۔([1]) ۔اور  ’’ طَبَرانینے کبِیر  ‘‘ میں  حضرت ِ سیِّدُنا ابو ایوب انصاریرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہسے روایت کی ہےکہ دونوں فرشتوں پر اس سے زِیادہ کوئی چیزگراں نہیں کہ وہ اپنے ساتھی کو نماز پڑھتا دیکھیں اور اس کے  دانتوں میں  کھانے کے  ریزے پھنسے ہوں ۔(مُعْجَم کبِیرج۴ص۱۷۷حدیث۴۰۶۱،  فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۱ ص۶۲۴۔ ۶۲۵)   مسجدمیں  افطار کرنے والوں کیلئے اکثر منہ صاف کرنا دشوار ہوتا ہے کہ اچھی طرح صفائی کرنے بیٹھیں تو جماعت نکل جا نے کا اندیشہ ہوتا ہے لہٰذا مشورہ ہے کہ صرف ایک آدھ کھجور کھا کرپانی پی لیں پانی کو منہ کے  اندر خوبجُنبِش دیں یعنی ہلائیں تا کہ کھجور کی مٹھاس اور اس کے  اجزا چھوٹ کر پانی کے  ساتھ پیٹ میں  چلے جا ئیں ضرورتاً دانتوں میں  خلال بھی کریں ۔ اگر منہ صاف کرنے کا موقع نہ ملتا ہو تو آسانی اسی میں  ہے کہ صرف پانی سے افطار کر لیجئے۔ مجھے وہ روزہ دار بڑے پیارے لگتے ہیں جو طرح طرح کی نعمتوں کے  تھالوں سے بے نیاز ہو کرغروبِ آفتاب سے پہلے پہلے مسجد کی پہلی صف میں  ،  پانی لے کر بیٹھ جا ئیں کہ اِس طرح افطار سے جلدی فراغت بھی ملے،  منہ بھی صاف رہے اور پہلی صف میں  تکبیر اولیٰ کے  ساتھ باجماعت نماز بھی نصیب ہوجا ئے۔

    میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو!گزشتہ حدیثِ مبارَک میں  فرمایا گیا ہے کہ  ’’ اِفطار کے  وَقت دُعا رَدّ نہیں کی جا تی۔  ‘‘   بعض اَوقات قبولیت دُعاکے  اظہار میں  تاخیر ہوجا تی ہے توذِہن میں  یہ بات آتی ہے کہ دُعا آخر قبول کیوں نہیں ہوئی! جبکہ حدیثِ مبارَک میں  تو قبول دُعا کی بشارت آئی ہے۔پیارے اسلامی بھائیو! بظاہر تاخیر سے نہ



[1]    شعب الایمان ج۲ص۳۸۱ رقم۲۱۱۷۔

Index