فیضان رمضان

سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّمکی مَحَبَّت سے سرشار دیوانو! سچی بات تویہی ہے کہ عید اُن خوش بخت مسلمانوں کاحصہ ہے جنہوں نے ماہِ محترم،  رَمَضانُ المُبارک کو  رَوزوں ،  نمازوں اور دیگر عبادتوں میں  گزارا۔تو یہ عید اُن کے  لئے اللہ عَزَّوَجَلَّکی طرف سے مزدوری ملنے کا دِن ہے۔ ہمیں  تواللہ عَزَّوَجَلَّسے ڈرتے رہنا چاہئے کہ آہ !ماہِ محترم کا ہم حق ادا ہی نہ کر سکے ۔

سیدُنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی عید:

حضرتِ علامہ مولانا عبد المصطفٰی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْقَوِی  فرماتے ہیں :  عید کے  دِن چند حضرات مکانِ عالی شان پر حاضر ہوئے تو کیا دیکھا کہ امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عمرفاروقِ اَعظم  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ در وا زہ بند کرکے  زَارو قطار رو رہے ہیں ۔ لوگوں نے حیران ہوکر عرض کی:  یاامیرَالْمُؤمِنِین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ      !آج تو عید ہے جو کہ خوشی منانے کا دِن ہے ،  خوشی کی جگہ یہ رونا کیسا؟آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے آنسو پونچھتے ہوئے فرمایا:   ’’ ھٰذا یَوْمُ الْعِیْدِ وَھٰذا یَوْمُ الْوَعِیْد ‘‘ یعنی یہ عید کا دِن بھی ہے اور وَعید کا دِن بھی ۔ جس کے  نَمازو روزے مقبول ہوگئے بلا شبہ اُس کے  لئے آج عید کا دِن ہے، لیکن جس کے  نَمازو روزے رَد کر کے  اُس کے  منہ پر ماردیئے گئے اُس کیلئے تو آج وَعید کا دِن ہے  (مزید انکساراً فرمایا: )  اور میں  تواِس خوف سے رو رہا ہوں کہ آہ! ’’ اَنَا لَا اَدْرِیْ اَ مِنَ الْمَقْبُوْلِیْنَ اَمْ مِنَ الْمَطْرُوْدِیْنَ  ‘‘  یعنی مجھے یہ معلوم نہیں کہ میں  مقبول ہوا ہُوں یا رَد کردیا گیا ہوں ۔ (نورانی تقریریں ص۱۸۴)

عید کے  دن عمر یہ رو رو کر

بولے نیکوں کی عید ہوتی ہے   (وسائل بخشش ص۷۰۷)

اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے  صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجا ہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم

ہماری خوش فہمی:

اللہ اکبر!(عَزَّوَجَلَّ) مَحَبَّت والو!ذرا سوچئے ! خوب غور فرمائیے! وہ فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جن کو مالک جنت،  تاجدارِ رِسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم نے اپنی حیاتِ ظاہری ہی میں  جنت کی بشارت عنایت فرمادی تھی۔ اُن کے  خوف وخشیت کا تو یہ عالم ہو اور ہم جیسے نکمے اور باتونی لوگوں کی یہ حالت ہے کہ نیکی کے  ’’ ن ‘‘ کے  نقطے تک تو پہنچ نہیں پاتے مگر خوش  فہمیکا حال یہ ہے کہ ہم جیسا نیک اور پارسا تو شاید اب کوئی رہا ہی نہیں !اِس رِقت انگیز حکایت سے اُن لوگوں کو خصوصاًدرسِ عبرت حاصِل کرنا چائیے جو اپنی عبادات پر ناز کرتے ہوئے پھولے نہیں سماتے اور بلا مصلحت شرعی اپنے نیک اعمال مَثَلاً نَماز،  روزہ ،  حج ،  مساجد کی خدمت ، خلقِ خدا کی مدد اور سماجی فلاح وبہبود وغیرہ وغیرہ کاموں کا ہرجگہ اِعلان کرتے پھرتے ،  ڈَھنڈوراپیٹتے نہیں تھکتے ،  بلکہ اپنے نیک کاموں کی مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ اخبارات ورَسائل میں  تصاویر تک چھپوانے سے گریز نہیں کرتے۔ آہ! اِن کا ذِہن کس طرح بنایا جا ئے!اِن کو اخلاصِ نیت کی سوچ کس طرح فراہم کی جا ئے!اِنہیں کس طرح باوَر کرایا جا ئے کہ اپنی نیکیوں کا اِعلان کرنے میں  رِیا کاری کی آفت میں   پڑنے کا شدید خدشہ ہے۔ اور اپنا فوٹو چھپوانا؟ توبہ! توبہ! اپنے اعمال کی نمائش کا اتنا شوق کہ فوٹو جیسے حرام ذَرِیعے کو بھی نہ چھوڑا گیا۔اللہ عَزَّوَجَلَّرِیا کاری کی تَباہ کاری ،   ’’ میں  میں   ‘‘  کی مصیبت اور اَنانیت کی آفت سے ہم سب مسلمانوں کی حفاظت فرمائے ۔ اٰمین بِجا ہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم

شہزادے کی عید:

امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک مرتبہ عید کے  دِن اپنے شہزادے کو پرانی قمیص پہنے دیکھا تو رَو پڑے،  بیٹے نے عر ض کی: پیارے اباجا ن! کیوں رو رہے ہیں ؟ فرمایا: میرے لال ! مجھے اَندیشہ ہے کہ آج عید کے  دِن جب لڑکے  تمہیں اِس پرانی قمیص میں  دیکھیں تو کہیں تمہارا دِل نہ ٹوٹ جا ئے! بیٹے نے جواباً عرض کیا:  دِل تو اُس کا ٹوٹے جو رِضائے اِلٰہی عَزَّوَجَلَّ کے  کام میں  ناکام رہا ہویا جس نے ماں یا باپ کی نافرمانی کی ہو،  مجھے اُمید ہے کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی رِضا مندی کے  طفیلاللہ عَزَّوَجَلَّبھی مجھ سے راضی ہو جا ئے گا۔یہ سن کر حضرتِ عمرفاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے شہزادے کو گلے لگایا اور اُس کیلئے دُعا فرمائی۔  (مُکاشَفَۃُ الْقُلُوب ص ۳۰۸ مُلَخَّصاً)  اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے  صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجا ہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم

شہزادیوں کی عید:

امیرُ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدُنا عمر بن عبدُ الْعَزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خدمت میں  عید سے ایک دِ ن قبل آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی شہزادیاں حاضر ہوئیں اور بولیں:  ’’  ابو جا ن!  عید کے  دِن ہم کون سے کپڑے پہنیں گی؟  ‘‘ فرمایا:   ’’ یہی کپڑے جو تم نے پہن رکھے ہیں ،  اِنہیں دھو لو،  کَل پہن لینا!  ‘‘ نہیں ! ابو جا ن!  ہمیں  نئے کپڑے بنوادیجئے،  ‘‘  بچیوں نے ضد کرتے ہوئے کہا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:   ’’ میری بچیو!عید کا دِناللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی عبادت کرنے ، اُ س کا شکر بجا لانے کا

Index