فیضان رمضان

گھبرائیے۔ سیِّد ی  اعلٰی حضرتعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنکے  والد گرامی حضرتِ رئیسُ الْمُتَکَلِّمِیْن سیِّدُنا نقی علی خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن ’’ اَحسَنُ الْوِعائِ لِاٰدَابِ الدُّعائِ‘‘   صفحہ55 پرنقل کرتے ہیں :

دُعا کے  تین فوائد:

سرورِ معصوم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے روایت ہے : دُعا بندے کی ، تین باتوں سے خالی نہیں ہوتی:   {۱} یا اُس کا گناہ بخشا جا تا ہے۔یا  {۲} دنیا میں  اُسے فائدہ حاصل ہوتا ہے ۔یا  {۳}  اُس کے  لئے آخرت میں  بھلائی جمع کی جا تی ہے کہ جب بندہ آخرت میں  اپنی دُعاؤں کا ثواب دیکھے گا جو دُنیا میں  مستجا ب (یعنی مقبول )  نہ ہوئی تھیں تمنا کرے گا: کاش !دُنیا میں  میری کوئی دُعا قبول نہ ہوتی اور سب یہیں (یعنی آخرت )  کے  واسطے جمع رہتیں ۔ (اَلْمُستَدرَک ج۲ص۱۶۵حدیث۱۸۶۲، احسنُ الوعا ء ص۵۵)

دُعا میں  پانچ سعادتیں :

میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے!دُعا رائگاں توجا تی ہی نہیں ،  اِس کا دُنیا میں  اگر اثر ظاہر نہ بھی ہو تب بھی آخرت میں  اَجر و ثواب مل ہی جا ئے گا لہٰذا دُعا میں  سستی کرنا مناسب نہیں ۔

 ’’ یاعَفُوّ ‘‘  کے  پانچ حروف کی نسبت سے 5مَدَنی پھول

 {۱}  پہلا فائدہ یہ ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّکے  حکم کی پیروی ہوتی ہے کہ اُ س کا حکم ہے مجھ سے دُعا مانگا کرو۔چنانچہ پارہ 24 سُوْرَۃُ  الْمُؤمِنُوْنآیت 60 میں  ارشاد ہے:

اُدْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ-

ترجَمۂ کنزالایمان:  مجھ سے دُعا کرو میں  قَبول کروں گا۔

 {۲}  دُعا مانگنا سُنَّت ہے کہ ہمارے پیارے پیارے آقا،  مکی مَدَنی مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اکثر اَوقات دُعا مانگتے۔ لہٰذا دُعا مانگنے میں  اِتّباعِ سُنَّت کا بھی شرف حاصل ہوگا۔

 {۳}  دُعا مانگنے میں  اِطاعت رَسُول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دُعا کی اپنے غلاموں کو تاکِید فرماتے رہتے ۔

 {۴}  دُعا مانگنے والا عابدوں کے  زُمرے (یعنی گروہ) میں  داخل ہوتا ہے کہ دُعا بذاتِ خود ایک عبادَت بلکہ عبادَت کا بھی مغز ہے۔جیسا کہ ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عالیشان ہے: اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ ۔  یعنیدُعا عبادَت کا مغزہے ۔ ( تِرمذِی ج۵ص۲۴۳حدیث۳۳۸۲)

{۵}  دُعا مانگنے سے یا تو اُس کا گناہ مُعاف کیا جا تا ہے یا دُنیا ہی میں  اُس کے  مسائل حل ہوتے ہیں یا پھر وہ دُعا اُس کے  لئے آخرت کا ذَخیرہ بن جا تی ہے۔

نہ جا نے کون سا گناہ ہوگیا ہے:

میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے؟ دُعا مانگنے میں  اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّاور اُس کے  پیارے حبیب ماہِ نبوت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اِطاعت بھی ہے،  دُعا مانگنا سُنَّت بھی ہے،  دُعا مانگنے سے عبادَت کا ثواب بھی ملتا ہے نیز دُنیا و آخرت کے  مُتَعَدِّد فوائد حاصِل ہوتے ہیں ۔ بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ دُعا کی قبولیت کیلئے بہت جلدی مچاتے بلکہ مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ! باتیں بناتے ہیں کہ ہم تو اتنے عرصے سے دُعائیں مانگ رہے ہیں ،  بزرگوں سے بھی دُعائیں کرواتے رہے ہیں ،  کوئی پیر فقیر نہیں چھوڑا،  یہ وظائف پڑھتے ہیں ،  وہ اَوراد پڑھتے ہیں ،  فلاں فلاں مزار پر بھی گئے مگر ہماری حاجت پوری ہوتی ہی نہیں ،  بلکہ بعض یہ بھی کہتے سنے جا تے ہیں :

 ’’ کیا خطا ہم سے ایسی ہوئی ہے !جس کی ہم کو سزامل رہی ہے!! ‘‘

نماز نہ پڑھنا تو گویا خطا ہی نہیں !!!:

حیرت انگیز تو یہ ہے کہ اس طرح کی ’’  بھڑا س  ‘‘ نکالنے والے بسا اوقات بے نمازی ہوتے ہیں ! گویا نماز نہ پڑھنا تو (مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ)  کوئی گناہ ہی نہیں ہے! چہرہ دیکھو تو دُشمنانِ مصطَفٰے آتش پرستوں جیسایعنی تاجدارِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظیم سُنَّت داڑھی مُبارَک چہرے سے غائب ! نیز جھوٹ ، غیبت ، چغلی ، وَعدہ خلافی ،  بدگمانی،  بدنگاہی،  والدین کی نافرمانی ، فلمیں  ڈِرامے، گانے باجے وغیرہ وغیرہ گناہ عادت میں  شامل ہونے کے  باوجود زَبان پر یہ اَلفاظِ شکوہ کھیل رہے ہوتے ہیں :    ؎

 ’’ کیا خطا ہم سے ایسی ہوئی ہے !جس کی ہم کو سزامل رہی ہے!! ‘‘

جس دوست کی بات ہم نہ مانیں :

ذرا سوچئے توسہی !کوئی جِگری دَوست کئی بارکچھ کام بتائے مگر آپ اُس کا کام نہ کریں ۔اتفاق سے کبھی اُسی دَوست سے کام پڑجا ئے تو آپ پہلے ہی سہمے رہیں

Index