عبداللہ ابنِ عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے مجھے مسجِد میں وہ جگہ دکھائی جہاں سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اعتکاف فرماتے تھے۔ (مسلم ص۵۹۷ حدیث ۱۱۷۱ )
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! مسجِدِنَبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں جس جگہ ہمارے میٹھے میٹھے آقا، مکی مَدَنی مصطفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اعتکاف کیلئے سریر(یعنی تخت) بچھاتے تھے وہاں بطورِیادگارایک مبارَک سُتون بنام ’’ اُسْطُوَانَۃُ السَّرِیْر ‘‘ آج بھی قائم ہے۔ خوش نصیب عاشِقانِ رسول اس کی زیارت کرتے اور حصولِ بَرَکت کیلئے یہاں نوافل اداکرتے ہیں ۔
حضرتِ سیِّدُنا ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے : ایک مرتبہ سلطانِ دوجہان، شہنشاہِ کون و مکان، رحمتِ عالمیان صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے یکم رَمضان سے بیس رَمضان تک اِعتکاف کرنے کے بعد ارشاد فرمایا: ’’ میں نے شبِ قدر کی تلاش کیلئے رَمضان کے پہلے عشرے کا اعتکاف کیا پھر درمیانی عشرے کا اعتکاف کیا پھر مجھے بتایا گیا کہ شبِ قدر آخری عشرے میں ہے لہٰذا تم میں سے جو شخص میرے ساتھ اِعتکاف کرنا چاہے وہ کر لے ۔ ‘‘ (مُسلم ص۵۹۴حدیث۱۱۶۷)
حضرتِ سیِّدُنا ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے ایک ترکی خیمے کے اندر رَمضانُ الْمُبارَک کے پہلے عشرے کااعتکاف فرمایا، پھر درمیانی عشرے کا، پھر سراقدس باہر نکالا اور فرمایا: ’’ میں نے پہلے عشرے کا اعتکاف شبِ قدر تلاش کرنے کیلئے کیا، پھراسی مقصد کے تحت دوسرے عشرے کااعتکاف بھی کیا، پھر مجھےاللہ عَزَّوَجَلَّکی طرف سے یہ خبر دی گئی کہ شبِ قدر آخری عشرے میں ہے۔ لہٰذا جوشخص میرے ساتھ اعتکاف کرنا چاہے وہ آخری عشرے کا اعتکاف کرے۔ اس لئے کہ مجھے پہلے شب قدر دکھادی گئی تھی پھر بھلادی گئی ، اور اب میں نے یہ دیکھاہے کہ شب قدر کی صبح کو گیلی مٹی میں سجدہ کررہاہوں ۔لہٰذا اب تم شب قدر کو آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ ‘‘ حضرتِ سیِّدُنا ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ اُس شب بارِش ہوئی اور مسجِد شر یف کی چھت مبارک ٹپکنے لگی ، چنانچِہ اکیس رَمضانُ الْمُبارَک کی صبح کو میری آنکھوں نے میٹھے میٹھے آقا، مکی مَدَنی مصطفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کواس حالت میں دیکھاکہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی مبارک پیشانی پر گیلی مٹی کانشان عالی شان تھا۔ (مِشکٰوۃ ج ۱ ص ۳۹۲ حدیث ۲۰۸۶)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہمیں زندَگی میں ایک بار تواِس ادائے مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو ادا کرتے ہوئے پورے ماہِ رَمضانُ الْمُبارَککا اِعتکاف کرہی لینا چاہئے۔ رَمضانُ الْمُبارَکمیں اِعتکاف کرنے کا سب سے بڑا مقصد شبِ قَدْر کی تلاش ہے۔ اور راجِح (یعنی غالِب) یہی ہے کہ شبِ قَدْر رَمضانُ المُبارَک کے آخری دس۱۰ دنوں کی طاق راتوں میں ہوتی ہے۔ اِس حدیثِ مبارَک سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اُس بار شبِ قَدْر اِکیسویں ۲۱ شب تھی مگر یہ فرماناکہ ’’ آخِری عشرے کی طاق راتوں میں اِس کو تلاش کرو۔ ‘‘ اس بات کو ظاہرکرتاہے کہ شبِ قَدْر بدلتی رَہتی ہے۔ یعنی کبھی اِکیسویں ۲۱ ، کبھی تئیسویں ۲۳ ، کبھی پچیسویں ۲۵ کبھی ستائیسویں ۲۷ توکبھی انتیسو یں ۲۹ شب۔ مسلما نو ں کوشبِ قَدْرکی سعادت حاصِل کرنے کیلئے آخری عشرے کے اِعتکاف کی ترغیب دلائی گئی ہے، کیوں کہ مُعتَکِف دسو۱۰ں دن مسجدہی میں گزارتاہے اوران د۱۰س دنوں میں کوئی سی ایک رات شبِ قَدر ہوتی ہے۔اور یوں وہ شبِ قدر مسجد میں گزارنے میں کامیاب ہو جا تاہے۔ایک اور نکتہ اس حدیثِ پاک سے یہ بھی معلوم ہواکہ رسولِ پاک، صاحب لولاک، سیّاحِ اَفلاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے خاک پر سجدہ ادا فرمایاجبھی توخاک کے خوش نصیب ذَرّات سرورِ کائنات ، شَہَنْشاہِ موجودات صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی نورانی پیشانی سے چِمٹ گئے تھے۔
زمین پربلا حائل سجدہ کرنا مستحب ہے:
فقہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام فرماتے ہیں : ’’ زمین پر بلاحائل (یعنی مصلّٰی ، کپڑا وغیرہ نہ ہو یوں ) سجدہ کرنا افضل ہے۔ ‘‘ (مراقِی الْفَلاح ص۱۹۰) حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُناامام محمدبن محمدبن محمد غزالیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالینقل فرماتے ہیں : حضرتِ سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہمیشہ زمین ہی پرسجدہ کرتے یعنی سجدے کی جگہ مصلّی وغیرہ نہ بچھاتے۔ (اِحیاء العُلُوم ج۱ص۲۰۴)
دو فرامینِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
{۱} ’’ جس نے رَمَضانُ الْمُبارَک میں دس دن کا اعتکاف کرلیاوہ ایسا ہے جیسے دوحج اوردوعمرے کئے۔ ‘‘ (شُعَبُ الْاِیمان ج۳ص۴۲۵حدیث ۳۹۶۶) {۲} ’’ اِعتکاف کرنے والاگناہوں سے بچا رہتا ہے اور اس کیلئے تمام نیکیاں لکھی جا تی ہیں جیسے ان کے کرنے والے کے لئے ہوتی ہیں ۔ ‘‘ (ابنِ ماجہ ج۲ص۳۶۵حدیث۱۷۸۱)