فیضان رمضان

ہفتہ اور اتوار کے  روزے:

حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا ہے کہ رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہفتے اور اتوار کا روزہ رکھا کرتے اور فرماتے:   ’’ یہ دونوں (یعنی ہفتہ اور اتوار) مشرکین کی عید کے  دِن ہیں اور میں  چاہتاہوں کہ ان کی مخالفت کروں ۔ ‘‘ (ابنِ خُزَیْمہ ج۳ص۳۱۸حدیث۲۱۶۷)

            تنہا ہفتے کا روزہ رکھنا منع ہے۔ چنانچہ حضرتِ سَیِّدُنا عبد اللہ بن بسر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنی بہن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا سے رِوایت کرتے ہیں کہ رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:   ’’ ہفتے کے  دن کا روزہ فرض روزوں کے  علاوہ مت رکھو۔ ‘‘  حضرتِ سَیِّدُنا امام ابو عیسٰی ترمذی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے اور یہاں ممانعت سے مراد کسی شخص کا ہفتے کے  روزے کو خاص کرلینا ہے کہ یہودی اِس دن کی تعظیم کرتے ہیں ۔ (تِرْمِذِی ج۲ص۱۸۶حدیث۷۴۴)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 ’’ اے شہنشاہِ مدینہ ‘‘ کے  تیرہ حُرُوف کی نسبت سے روزۂ نَفْل کے  13مَدَنی پھول

٭ماں باپ اگر بیٹے کو نفل روزے سے اِس لئے منع کریں کہ بیماری کا اندیشہ ہے تو والدین کی اطاعت کرے۔ (رَدُّالْمُحتارج۳ص۴۷۸)

٭شوہر کی اجا زت کے  بغیر بیوی نفل روزہ نہیں رکھ سکتی۔  (دُرِّمُخْتار ج۳ص۴۷۷)

٭نفل روزہ قصد اً شروع کرنے سے پورا کرنا واجب ہوجا تا ہے اگر توڑے گا تو قضا واجب ہوگی۔  (ایضاًص۴۷۳)

٭ نفل روزہ جا ن بوجھ کر نہیں توڑا بلکہ بلا اختیار ٹوٹ گیا مَثَلاً عورت کوروزے کے  دَوران حیض آگیا تو روزہ ٹوٹ گیا مگر قضا واجب ہے۔ (ایضاًص۴۷۴)

٭نفل روزہ بلاعذر توڑنا ، ناجا ئز ہے ۔مہمان کے  ساتھ اگر میزبان نہ  کھائے گا تو اُسے یعنی مہمان کونا گوار گزرے گا ۔ یا مہمان اگر کھانا نہ کھائے تو میزبان کواَذِیت ہوگی تو  نفل روزہ  توڑنے کیلئے یہ عذر ہے بشرطیکہ یہ بھروساہو کہ اس کی قضا رکھ لیگااور یہ بھی شرط ہے کہ ضَحْوۂِ کُبْر یٰ سے پہلے توڑے بعد کو نہیں ۔(دُرِّمُخْتار،  رَدُّالْمُحْتار ج ۳ ص۴۷۵-۴۷۶)

٭والدین کی ناراضی کے  سبب عصر سے پہلے تک نفل روزہ توڑ سکتا ہے بعد عصر نہیں ۔           (ایضاًص۴۷۷)

٭اگر کسی اسلامی بھائی نے دعوت کی تو ضَحْوۂِ کُبریٰسے قبل نفل روزہ  توڑسکتا ہے مگر قضا واجب ہے۔ (دُرِّمُختار ج۳ص۴۷۷، ۴۷۳)

٭اِس طرح  نیت کی کہ  ’’  کہیں دعوت ہوئی تو روزہ نہیں اور نہ ہوئی تو ہے ۔  ‘‘  یہ نیت صحیح نہیں ، بہرحال روزہ دار نہیں ۔         (عالمگیری ج۱ص۱۹۵)

٭ملازِم یا مزدور اگرنفل روزہ رکھیں توکام پورا نہیں کرسکتے تو  ’’ مسْتاجر  ‘‘ (یعنی جس نے ملازَمت یا مزدوری پر رکھا ہے) کی اجا زت ضروری ہے۔اور اگر کام پورا کرسکتے ہیں تواجا زت کی ضرورت نہیں ۔([1])     (دُرِّمُخْتار ج۳ص ۴۷۸)

 ٭طالبِ علمِ دین اگر نفل روزہ رکھتا ہے تو کمزوری ہوتی،  نیند چڑھتی اور سستی کے  سبب طلبِ علمِ دین میں  رکاوٹ کھڑی ہوتی ہے تو افضل یہ ہے نفل روزہ نہ رکھے۔

٭حضرت سَیِّدُنا داوٗد عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام ایک دن چھوڑ کر ایک دن روزہ رکھتے تھے۔اس طرح روزے رکھنا ’’ صَومِ داو‘دی  ‘‘ کہلاتا ہے اور ہمارے لئے یہ افضل ہے۔ جیسا کہ رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:   ’’ افضل روزہ میرے بھائی داوٗد(عَلَیْہِ السَّلام)  کا روزہ ہے کہ وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دِ ن نہ رکھتے اور دشمن کے  مقابلے سے فِرار نہ ہوتے تھے۔ ‘‘   ( تِرمذی ج۲ص۱۹۷حدیث۷۷۰)

٭ حضرت سَیِّدُناسلیمان عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام تین۳ دن مہینے کے  شروع میں  ،  تین۳ دن وَسط(یعنی بیچ ) میں  اور تین۳ دن آخر میں  روزہ رکھا کرتے تھے اور اس طرح مہینے کے  اَوائل،  اَوَاسط اوراَواخر میں  روزہ دار رہتے تھے۔(ابن عساکر ج۲۴ص۴۸)

٭ صومِ دہر(یعنی ہمیشہ روزے رکھناسوا ان پانچ دنوں یعنی شوال کی یکم اور ذِی الحجہ کی دسویں تا تیرھویں کے  جن میں  روزہ رکھنا حرام ہے)  مکروہِ تنزیہی ہے۔  (دُرِّمُخْتار ج۳ص۳۹۱)  

ہمیشہ روزہ رکھنا:

ہمیشہ کے  روزوں سے ممانعت پر  ’’ بخاری شریف ‘‘  کی یہ حدیث بھی ہے اور اس کا مفہوم بھی علما نے تاویل کے  ساتھ بیان فرمایا ہے

 چنانچہ فرمانِ مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:  لاَ صَامَ مَنْ صَامَ الدَّہْرَ۔یعنی جو ہمیشہ روزے رکھے اس نے روزے رکھے ہی نہیں ۔   (بُخاری ج۱ص۶۵۱حدیث۹۱۷۹)

شارِحِ بخاری حضرتِ علَّامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیاِس حدیثِ پاک کے  تحت لکھتے ہیں :   اگر اس خبر کو ’’  نَہْی ‘‘  کے  معنی میں  مانیں (یعنی اگر اس حدیث کا یہ معنیٰ لیں کہ ہمیشہ روزے رکھنا منع ہے اور جو رکھے گا تو اسے کوئی ثواب نہیں ملے گا)  تو (اس صورت میں  حدیث کا) یہ ارشاد ان لوگوں کے  لیے ہے جنہیں مسلسل



[1]     ملازمت کے متعلق بہترین معلومات کیلئے مکتبۃ المدینہ کا شائع کردہصرف 22صفحات کا رسالہ’’حلال طریقے سے کمانےکے50مدنی پھول‘‘کاضرور مطالعہ فرمائیے۔

Index