فیضان رمضان

اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّ کی ان سب پر رَحمت ہو اور اُن کے  صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔

وسوسہ اور اس کا علاج:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہو سکتا ہے کسی کووسوسہ آئے کہ ایک دن میں  کئی بار بلکہ لمحہ بھر میں  ختم قراٰنِ پاک یا ختم زَبور شریف کیسے ممکن ہے ؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ یہ اولیاءِ کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کی کرامات اور حضرت سیِّدُنا داوٗدعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکا معجزہ ہے اور معجزہ اور کرامت عادۃً محال ہوتے ہیں یعنی ان کا بطورِ عادت ظاہر ہونا ممکن نہیں ہوتا۔

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

دورانِ تلاوت حرف چبانا:

افسوس! آج کل دینی مُعاملات میں  سستی کادَور دورہ ہے، عموماً تراویح میں  قراٰنِ کریم ایک بار بھی صحیح معنوں میں  ختم نہیں ہو پاتا۔ قراٰنِ پاک ترتیل کے  ساتھ یعنی ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہیے،  مگر حال یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا کرے تواکثر لوگ اُس کے  ساتھ تراویح پڑھنے کیلئے تیار ہی نہیں ہوتے!اب وُہی حافظ پسند کیا جا تا ہے جو تراویح سے جلد فارِغ کردے۔ یاد رکھئے ! تر اویح  اور نمازکے  علا وہ بھی تلاوت میں  حر ف چبا جا  نا حرام ہے۔ اگرتراویح میں  حافظ صاحب پورے قراٰنِ کریممیں  سے صرف ایک حرف بھی چبا گئے تو ختم قران کی سنت ادا نہ ہو گی۔بلکہ دورانِ نماز حرف چب جا نے کی وجہ سے معنیٰ فاسد ہونے یا مہمل یعنی بے معنیٰ ہو جا نے کی صورت میں  وہ نماز بھی فاسد ہو جا ئے گی ۔لہٰذاکسی آیت میں  کوئی حرف  ’’ چب ‘‘  گیا یا دُرست  ’’ مخرج ‘‘  سے نہ نکلا اور بدل گیا تو لوگوں سے شرمائے بغیرپلٹ پڑیئے اور دُرُست پڑھ کر پھر آگے بڑھئے ۔ ایک افسو س ناک اَمریہ بھی ہے کہ حفا ظ کی ایک تعداد ایسی ہوتی ہے جسیترتیل کے  ساتھ پڑھنا ہی نہیں آتا! تیزی سے نہ پڑ ھیں تو بھو ل جا  تے ہیں ! ایسوں کی خد متوں میں  ہمدردانہ مشورہ ہے،  لوگوں سے نہ شر ما ئیں ، خدا کی قسم! اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی ناراضی بہت بھاری پڑے گی لہٰذا بلا تاخیر تجوید کے  ساتھ پڑھانے والے کسی قا ری صاحب کی مدد سے از اِبتدا تا اِنتہااپنا حفظ دُرُست فر ما لیں ۔ مدولین ([1]) کا خیا ل رکھنا لا زِمی ہے نیز مد، غنہ،  اظہار،  اِخفا وغیرہ کی بھی رعایت فرمائیں ۔ صاحبِ بہارِشریعت حضرت صدرُ الشَّریعہ بدرُ الطَّریقہ علامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیفرما تے ہیں :  ’’ فر ضو ں میں  ٹھہر ٹھہر کر قرا ء َت کرے اور  تر اویح میں  مُتَوَ سِّط (یعنی درمیانہ)  انداز پر اور رات کے  نوافل میں  جلد پڑھنے کی اجا زت ہے،  مگر ایسا پڑھے کہ سمجھ میں  آسکے  یعنی کم سے کم  ’’ مد ‘‘  کا جو دَرَجہ قا رِیو ں نے رکھا ہے اُس کو ادا کرے ورنہ حرام ہے۔اس لئے کہ ترتیل سے (یعنی خوب ٹھہر ٹھہر کر)   قراٰن پڑھنے کا حکم ہے ۔  ‘‘  (بہار شریعت ج۱ص۵۴۷، دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتارج۲ص۳۲۰)

            پارہ 29 سُوْرَۃُ الْمُزَّمِّلکی چو تھی آیت میں  ارشا د ِربّا نی ہے:  

وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاؕ(۴)                                                    ترجَمۂ کنزالایمان:  اور قراٰن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔

ترتیل سے پڑھنا کسے کہتے ہیں !:

میرے آقا اعلٰی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ’’  کمالین علیٰ حاشیہ جلالین ‘‘  کے  حوالے سے  ’’  ترتیل  ‘‘  کی وضاحت کرتے ہوئے نقل کرتے ہیں :   ’’ قراٰنِ مجید اِس طرح آہستہ اور ٹھہر کر پڑھو کہ سننے والا اِس کی آیات و الفاظ گن سکے ۔ ‘‘ (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ  ج ۶ص۶ ۲۷) نیزفرض نماز میں  اس طرح تلاوت کرے کہ جدا جدا ہر حرف سمجھ آئے،  تراویح میں  مُتَوَسِّط (یعنی درمیانہ ) طریقے پر اور رات کے  نوافل میں  اتنی تیز پڑھ سکتا ہے جسے وہ سمجھ سکے  ۔(دُرِّمُختَار ج۲ص۳۲۰)   ’’ مدارِکُ التَّنْزِیل ‘‘  میں  ہے:   ’’ قراٰن کو آہستہ اور ٹھہر کر پڑھو ،  اس کا معنیٰ یہ ہے کہ اطمینان کے  ساتھ ، حروف جدا جدا ،  وقف کی حفاظت اور تمام حرکات کی ادائیگی کا خاص خیال رکھنا ہے،  ’’  تَرْتِیْلًا  ‘‘ اس مسئلے میں  تاکید پیدا کر رہا ہے کہ یہ بات تلاوت کرنے والے کے  لئے نہایت ہی ضَروری ہے۔ ‘‘

( مدارکُ التّنزیل ص۱۲۹۲،  فتاوٰی رضویہ  مُخَرَّجہ ج ۶ص۸ ۲۷، ۲۷۹)  ( ترتیل کے  اَحکام جا ننے کیلئے فتاوٰی رضویہ جلد6صَفحہ 275تا282کامطالعہ فرمائیے)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

تراویح کی اُجرت لینا دینا کیسا؟:

قراٰنِ کریمپڑھنے پڑھانے والوں کو اپنے اندر اِخلاص پیدا کرنا ضروری ہے اگر حافظ اپنی تیزی دکھانے،  خوش آوازی کی داد پانے اور نام چمکانے کیلئے قراٰنِ کریم پڑھے گا تو ثواب تو دُور کی بات ہے،  اُلٹا حب جا ہ اور ریاکاری کی تباہ کاری میں  جا  پڑے گا !اِسی طرح اُجرت کا لین دین بھی نہ ہو،  طے کرنے ہی کو اُجرت نہیں کہتے بلکہ اگر یہاں تراویح پڑھانے آتے اِسی لئے ہیں کہ معلوم ہے کہ یہاں کچھ ملتا ہے اگرچِہ طے نہ ہوا ہو،  تو یہ بھی اُجرت ہی ہے۔اُجرت رقم ہی کا نام نہیں بلکہ کپڑے یا غلہ(یعنی اناج)  وغیرہ کی صورت میں  بھی اُجرت، اُجرت ہی ہے۔ہاں اگر حافِظ صاحب نیت کے  ساتھ صاف صاف کہہ دیں کہ میں  کچھ نہیں لوں گا یا



[1]      وؤا،ی اور الف ساکن اور قبل کی حرکت موافق ہوتو (یعنی واؤ کے پہلے پیش  اور ی کے پہلے زیر اور الف کے پہلے زبر)اس کو مد اور واؤ اور ی ساکن ماقبل مفتوح کو لین کہتے ہیں۔

Index