فیضان رمضان

سے پہلے ہی شروع ہوگئے تھے،    روزہ ٹوٹ گیا قضا کرنا ہوگا۔( رَدِّالْمُحتَار ج۳ص۴۳۹ ماخوذاً)   

 {۱۱} آج کل بے پروائی کا دَور دَورا ہے،  ہر ایک کو چاہئے کہ اپنے روزے کی خود حفاظت کرے۔سائرن ، ریڈیو ، ٹی وی کے  اِعلان بلکہ مسجِد کی اذان پربھی اکتِفا کرنے کے  بجا ئے خود سحری وا ِفطار کے  وَقت کی صحیح صحیح معلومات رکھے ۔

 {۱۲}  وضو کررہا تھا پانی ناک میں  ڈالا اور دِماغ تک چڑھ گیا یاحلق کے  نیچے اُتر گیا، روزہ دار ہونایا د تھا تو روزہ ٹوٹ گیا اورقضا لازِم ہے ۔ ہاں اُس وَقت روزہ دار ہونا یادنہیں تھا تو  روزہ نہ گیا۔    (عالمگیری ج۱ص۲۰۲)

کفارے کے  اَحکام:

میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! رَمَضانُ الْمُبارَک کا روزہ رکھ کربغیر کسی صحیح مجبوری کے  جا ن بوجھ کر توڑ دینے سے بعض صورتوں میں  صرف قضا  لازِم آتی ہے اور بعض صورتوں میں  قضا کے  ساتھ ساتھ کفارہ بھی واجب ہوجا تا ہے۔

روزے کے  کفارے کا طریقہ:

روزہ توڑ نے کا کَفَّارہ یہ ہے کہ ممکن ہو تَو ایک باندی یا غلام آزاد کرے اور یہ نہ کرسکے  مَثَلاً اِس کے  پاس نہ لونڈی ،  غلام ہے نہ اتنا مال کہ خریدسکے ،  یا مال توہے مگر غلام میسر نہیں ، جیسا کہ آج کل لونڈی غلام نہیں ملتے تواب پے دَرْپے ساٹھ روزے رکھے۔( یاد رہے!اگرسن ہجری کے  مہینے کی یکم (پہلی)  سے شروع کریں تو دوماہ پورے روزے رکھئے،  ہو سکتا ہے کہ دونوں مہینے انتیس انتیس کے  ہوں تو 58 روزوں سے کفارہ ادا ہو جا ئے گا اور اگر یکم کے  بعد کسی دن سے روزے شروع کریں تو اب پے دَرپے 60 روزے رکھنے ہوں گے) یہ بھی اگر ممکن نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو پیٹ بھر کر دونوں وَقت کھانا کھلائے یہ ضروری ہے کہ جس کو ایک وقت کھلایا دوسرے وقت بھی اُسی کو کھلائے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ساٹھ مساکین کو ایک ایک صدقۂ فطر (مَثَلاً 2کلو میں  80 گرام کم  گیہوں یا اُس کی رقم ) کا مالک کر دیا جا ئے۔ ایک ہی مسکین کو اکٹھے ساٹھ صدقۂ فطر نہیں دے سکتے، ہاں یہ کر سکتے ہیں کہ ایک ہی کو ساٹھ دن تک روزانہ ایک ایک صدقۂ فطر دیں ([1]) ۔ رَوزوں کی صورَت میں  (دَورانِ کفارہ)  اگر درمیان میں  ایک دِن کا بھی روزہ چھوٹ گیا توپھر نئے سرے سے ساٹھ روزے رکھنے ہوں گے پہلے کے  روزے شاملِ حساب نہ ہوں گے اگر چہ اُنسٹھ(59)  رکھ چکا تھا، چاہے بیماری وغیرہ کسی بھی عذر کے  سبب چھوٹا ہو۔ (بہار شریعت ج ۱ ص ۹۹۴مُلَخصاً )

عورت اور کفارے کے  روزے:

اگر عورت نے رَمضان کا روزہ توڑدیا اور کفّارے میں  روزے رکھ رہی تھی اور حیض آگیا تو سرے سے رکھنے کا حکم نہیں بلکہ جتنے باقی ہیں اُن کا رکھنا کافی ہے۔ ہاں اگر اس حیض کے  بعد  ’’ آئسہ ‘‘  ہوگئی یعنی اب ایسی عمر ہوگئی کہ حیض نہ آئے گا،  تو سرے سے رکھنے کا حکم دیا جا ئے گا کہ اب وہ پے در پے دومہینے کے  روزے رکھ سکتی ہے اور اگر اِثنائے کفّارہ میں  (یعنی کفارہ کے  روزے رکھنے کے  دوران)  عورت کے  بچہ ہوا تو سرے سے رکھے۔ (بہارِ شریعت ج۲ص۲۱۴)

آئسہ کتنی عمر میں  ؟:

کم سے کم نوبرس کی عمر سے حیض شروع ہو گا اور انتہائی عمر حیض آنے کی پچپن سال ہے۔ اس عمر والی عورت کو آئسہ اور اس عمر کو ’’ سِنِ اَیاس ‘‘  کہتے ہیں ۔              (بہارِ شریعت ج۱ص۳۷۲)  

کفارہ واجب ہونے کی ایک صورت:

جوکوئی رات سے ہی رَمضان کے  اداروزے کی نیت کرچکا ہو اور پھر صبح یادِن میں  کسی بھی وَقت بلکہ اگر اِفطار سے ایک لمحہ بھی قبل کسی صحیح مجبوری کے  بغیر کسی ایسی چیز جس سے طبیعت اِنسانی نفرت نہ کرتی ہو(مَثَلاً کھانا، پانی، چائے ، پھل ،     بسکٹ ،  شربت ،  شہد ، مٹھائی وغیرہ وغیرہ) سے عمداً(یعنی جا ن بوجھ کر)  روزہ توڑ ڈالے تو اب رَمضان شریف کے  بعد اِس روزے کی قضا کی نیت سے ایک روزہ رکھنا ہوگا اور اُس کا کفارہ بھی دینا ہوگا۔ میرے آقااعلٰی حضرت ، امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں :  کسی نے بلا عذر شرعی رَمَضانُ الْمبارَک کا ادا روزہ جس کی نیت رات سے کی تھی بالقصد (یعنی جا ن بوجھ کر)  کسی غذا یا دوا یا نفع رَساں شیٔ( یعنی نفع پہنچانے والی چیز)  سے توڑ ڈالا اور شام تک (یعنی اِفطارسے پہلے)  کوئی ایسا عارِضہ لاحِق نہ ہوا جس کے  باعث شرعاً آج روزہ رکھنا ضرور نہ ہوتا  ( مثَلاً عورت کو اُسی دن میں  حیض یانفاس آگیا یا روزہ توڑنے کے  بعد اُسی دن میں  ایسا بیمار ہوگیا جس میں  روزہ نہ رکھنے کی اجا زت ہے) تو اس جر م کے  جُرمانے میں  ساٹھ روزے پے در پے رکھنے ہوتے ہیں ۔ ویسے جو روزہ نہ رکھا ہو اس کی قضا صِرف ایک روزہ ہے۔ (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ   ج۱۰ ص۵۱۹)

 ’’  یااللہ کرم کر ‘‘ کے گیارہ حروف کی نسبت

 



[1]     کفّارے  میں صدقۂ فطر دینے  کا مسئلہ بہارِ شریعت  جلد2صفحہ215پر سے دیکھا جاسکتاہے۔

Index