مہر و ماہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے بعض صحابۂ کرام رِضوانُ اللہ تعالٰی عَلَیْہِم اجْمَعِیْن کو خواب میں آخری سات راتوں میں شبِ قدر دِکھائی گئی۔ میٹھے میٹھے آقا، مکی مَدَنی مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’ میں دیکھتا ہوں کہ تمہارے خواب آخری سات راتوں میں مُتَّفِق ہوگئے ہیں ۔ اِس لئے اِس کا تلاش کرنے والا اِسے آخری سات راتوں میں تلاش کرے۔ ‘‘ ( بُخاری ج۱ص۶۶۰حدیث۲۰۱۵)
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! اللہ عَزَّوَجَلَّ کی سُنَّتِ کریمہ ہے کہ اُس نے بعض اَہم ترین مُعاملات کو اپنی مَشِیَّت سے بندوں پر پوشیدہ رکھا ہے۔ جیسا کہ منقول ہے: ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنی رِضاکو نیکیوں میں ، اپنی ناراضیکو گناہوں میں اور اپنے اَولیا رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰیکواپنے بندوں میں پوشیدہ رکھا ہے ۔ ‘‘ (اَخلاقُ الصالحین ص ۵۶) اِس کا خلاصہ ہے کہ بندہ چھوٹی سمجھ کر کوئی نیکی نہ چھوڑے۔کیونکہ وہ نہیں جا نتا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کس نیکی پر راضی ہو گا، ہوسکتا ہے بظاہر چھوٹی نظر آنے والی نیکی ہی سے اللہ عَزَّوَجَلَّ راضی ہو جا ئے ۔ مَثَلاً قیامت کے روز ایک گنہگار شخص صرف اِس نیکی کے عوض بخش دیا جا ئے گا کہ اُس نے ایک پیاسے کتے کو دُنیا میں پانی پلادیا تھا۔اِسی طرح اپنی ناراضی کو گناہوں میں پوشیدہ رکھنے کی حکمت یہ ہے کہ بندہ کسی گناہ کو چھوٹا تَصَوُّر کرکے کر نہ بیٹھے ، بس ہر گناہ سے بچتا رہے ۔کیوں کہ وہ نہیں جا نتا کہ اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰیکس گناہ سے ناراض ہوجا ئے گا۔اِسی طرح اَولیارَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰیکو بندوں میں اِس لئے پوشیدہ رکھا ہے کہ اِنسان ہر نیک حقیقی پابند شرع مسلمان کی رِعایَت و تعظیم بجا لائے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ’’ وہ ‘‘ وَلیُّ اللہ ہو۔ جب ہم نیک لوگوں کی دل سے تعظیم کیا کریں گے، بد گمانی سے بچتے رہیں گے اور ہر مسلمان کو اپنے سے اچھا تصور کرنے لگیں گے تو ہمارا معاشرہ بھی صحیح ہوجا ئے گا اور اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّہماری عاقبت بھی سنور جا ئے گی۔
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ’’ تفسیرکبیر ‘‘ میں فرماتے ہیں : اللہ عَزَّوَجَلَّ نے شبِ قدر کو چند وجوہ کی بنا پر پوشیدہ رکھا ہے۔ اوّل یہ کہ جس طرح دیگر اشیا کو پوشیدہ رکھا، مَثَلاً اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنی رِضا کو اطاعتوں میں پوشیدہ فرمایا تاکہ بندے ہر اطاعت میں رَغبت حاصِل کریں ۔ اپنے غضب کو گناہوں میں پوشیدہ فرمایا کہ ہر گناہ سے بچتے رہیں ۔ اپنے ولی کو لوگوں میں پوشیدہ رکھا تا کہ لوگ سب کی تعظیم کریں ، قبولیت دعا کو دعاؤں میں پوشیدہ رکھا کہ سب دعاؤں میں مُبالغہ کریں اور اسمِ اعظم کو اَسما میں پوشیدہ رکھا کہ سب اسما کی تعظیم کریں ۔اور صلوۃِ وسطیٰ کو نمازوں میں پوشیدہ رکھا کہ تمام نمازوں پر محافظت(یعنی ہمیشگی اختیار) کریں اور قبولِ تو بہ کوپوشیدہ رکھاکہ بندہ توبہ کی تمام اَقسام پر ہمیشگی اختیار کرے، اور موت کا وَقت پوشیدہ رکھا کہ مُکلَّف (بندہ) خوف کھاتا رہے۔ اسی طرح شبِ قدر کوبھی پوشیدہ رکھا کہ َرمَضان الْمُبارَک کی تمام راتوں کی تعظیم کرے۔ دوسرے یہ کہ گویا اللہ عَزَّوَجَلَّارشاد فرماتا ہے: ’’ اگر میں شب قدر کو مُعَیَّن(Fix) کر (کے تجھ پر ظاہر فرما) دیتا اور یہ کہ میں گناہ پر تیری جُرْأَت بھی جا نتا ہوں تواگرکبھی شہوت تجھے اِس رات میں معصیت کے کنارے لا چھوڑتی اور تو گناہ میں مبتلا ہوجا تا تو تیرا اِس رات کو جا ننے کے باوُجود گناہ کرنا لاعلمی کے ساتھ گناہ کرنے سے بڑھ کر سخت ہوتا، پس اِس وجہ سے میں نے اِسے پوشیدہ رکھا ۔ تیسرے یہ کہ میں نے اِس رات کو پوشیدہ رکھا تاکہ بندہ اِس کی طلب میں محنت کرے اور اِس محنت کا ثواب کمائے۔ چوتھے یہ کہ جب بندے کو شب قدر کا تعین حاصِل نہ ہوگا تو رَمَضانُ الْمُبارَک کی ہر رات میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت میں کوشش کرے گا اِس امید پر کہ ہوسکتا ہے یہی رات شبِ قدر ہو۔ (تفسِیرِ کبیر ج۱۱ص۲۹ مُلَخَّصاً )
سال میں کوئی سی بھی رات شب قدر ہو سکتی ہے:
شبِ قَدْر کے تَعَیُّن میں علمائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کا کافی اِختلاف پایا جا تا ہے ۔یہاں تک کہ بعض بزرگوں رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰیکے نزدیک شَبِ قدر پورے سال میں پھرتی رہتی ہے، مَثَلاً فَقِیْہُ الْاُمَّۃحضرتِ سَیِّدُنا عبدُاللہ ابنِ مَسْعُودرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا فرمان ہے: شبِ قدر وہی شخص پاسکتا ہے جو پورے سال کی راتوں پر توجُّہ رکھے ۔ (تفسیر کبیر ج۱۱ص۲۳۰) اِس قول کی تائِید کرتے ہوئے امامُ الْعارِفین سَیِّدُنا شیخ مُحی الدّین ابنِ عربی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں کہ میں نے شَعْبانُ المُعَظَّمکی پندرہویں شب (یعنی شبِ بَرَاء ت ) اور ایک بار شَعْبانُ المُعَظَّم ہی کی اُنیسویں شب میں شبِ قَدرپائی ہے۔ نیز رَمَضانُ الْمُبارَک کی تیرہویں شب اور اٹھارہویں شب میں بھی دیکھی، اور مختلف سالوں میں رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخری عشرے کی ہر طاق رات میں اِسے پایا ہے۔مزید فرماتے ہیں : اگر چہ زیادہ تر شبِ قدر رَمضان شریف میں ہی پائی جا تی ہے تاہم میرا تجربہ تو یہی ہے کہ یہ پورا سال گھومتی رہتی ہے۔ یعنی ہر سال کیلئے اِس کی کوئی ایک ہی رات مخصوص نہیں ہے۔ (اِتحافُ السّادَۃ ج۴ص۳۹۲ ملخّصاً)
رحمت کونین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی مع شیخین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا جلوہ گری: