خوش نصیب ہے وہ مسلمان جسے روزے کی حالت میں موت آئے بلکہ کسی بھی نیک کام کے دَوران موت آنا اچھی بات ہے ۔ مَثَلًا با وُضو یا دورانِ نَماز مرنا، سفرمدینہ کے دَوران رُوح قبض ہونا، دَورانِ حج مکۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً، مِنٰی، مُزدَلفہ یا عرفات شریف میں انتقال، دعوت اسلامی کے سنتوں کی تربیت کے مَدَنی قافلے میں عاشقانِ رسول کے ہمراہ سنتوں بھرے سفر کے دَوران دنیا سے رخصت ہونا، یہ سب عظیم سعادتیں ہیں جو کہ صرف خوش نصیبوں کو حاصل ہوتی ہیں ۔ اس سلسلے میں صحابۂ کرامعَلَیْہِمُ الرِّضْوَانکی نیک تمنا ئیں بیان کرتے ہوئے حضرتِ سیِّدُنا خَیْثَمَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَاناِس بات کو پسند کرتے تھے کہ کسی اچھے کام مَثَلاً حج ، عمرہ ، غزوہ (جِہاد) ، رَمضان کے روزے وغیرہ کے دوران موت آئے۔ ‘‘ (حِلْیَۃُ الْاولیاء ج۴ص۱۲۳)
کالو چاچا کی ایمان افروز وفات :
نیک کام کے دَوران موت سے ہم آغوش ہونے کی سعادت صرف مقدر والوں کا حصّہ ہے۔ اِس ضمن میں تبلیغِ قراٰن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ، دعوتِ اسلامی کے اجتماعی سنتِ اعتکاف کی ایک مَدَنی بہار ملا حظہ فرمایئے اور زندگی بھر کیلئے دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابستہ رہنے کا عزمِ مُصَمَّم کر لیجئے۔ مدینۃُ الاولیا احمد آباد شریف ( گجرات، الھند) کے کالو چاچا(عمر تقریباً 60 برس ) رَمَضانُ المُبارَک (۱۴۲۵ ھ ، 2004) کے آخری عشرے میں شاہی مسجِد( شاہِ عالم، احمد آباد شریف) میں مُعتکِف ہو گئے۔ یو ں تو یہ پہلے ہی سے مَدَنی ماحول سے وابستہ تھے مگر عاشِقانِ رسول کے ساتھ اعتکاف پہلی ہی بارکیا تھا۔ اعتکاف میں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا اور ساتھ ہی ساتھ دعوت اسلامی کے 72 مَدَنی اِنعامات میں سے پہلی صف میں نماز پڑھنے کی ترغیب والے دوسرے مَدَنی اِنعام پر عمل کاخوب جذبہ ملا ۔ 2 شوال المکرم یعنی عیدُ الفِطْر کے دوسرے روز ، سنتوں کی تربیت کے تین دن کے مَدَنی قافلے میں عاشِقانِ رسول کے ہمراہ سنتوں بھرا سفر کیا۔ مَدَنی قافلے سے واپسی کے پانچ یا چھ دن بعد یعنی 11شوال المکرم ۱۴۲۵ ھ 24 نومبر2004ء کوکسی کام سے بازار جا نا ہوا، گو مصروفیت تھی مگر تاخیر کی صورت میں پہلی صف فوت ہونے کاخدشہ تھا، لہٰذا سارا کام چھوڑ کر مسجد کا رُخ کیا اور اذان سے قبل ہی مسجد میں پہنچ گئے، وُضو کر کے جوں ہی کھڑے ہوئے فوراً گر پڑے ، کَلِمہ شریف اور دُرُودِ پاک پڑھتے ہوئے اُن کی رُوح قَفَسِ عُنصُری سے پرواز کر گئی، اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ۔ سُبْحٰنَ اللہِ! جس کو مرتے وَقت کَلِمَہ شریف پڑھنے کی سعادت نصیب ہوجا ئے اِن شَآءَاللہ عَزوَجَلَّاُس کا قَبْروحَشْرمیں بیڑا پار ہے ۔ چُنانچِہ نبیِّ رَحمت، شفیعِ اُمّت، مالِکِ جنّتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمانِ جنّت نِشان ہے: ’’ جس کا آخِری کلام لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ ہو، وہ داخِلِ جنّت ہو گا۔ ‘‘ ( ابو دَاوٗد ج ۳ ص ۲۵۵ حدیث۳۱۱۶) مزید دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول کی بَرَکت سنئے : انتِقال کے چند روز بعد ان کے فرزند نے خواب میں دیکھا کہ والد مرحوم سفید لباس میں ملبوس سر پر سبز سبز عمامہ شریف کا تاج سجا ئے مسکراتے ہوئے فرما رہے ہیں : بیٹا! دعوتِ اسلامی کے مَدَنی کاموں میں لگے رہو کہ اِسی مَدَنی ماحول کی برکت سے مجھ پر کرم ہوا ہے۔
موت فضلِ خدا سے ہو ایمان پر، مَدَنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف
ربّ کی رَحمت سے جنت میں پاؤ گے گھر، مَدَنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف (وسائلِ بخشش ص۶۴۰)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
سخت گرمی میں روزے کی فضیلت (حکایت) :
حضرتِ سَیِّدُناابنِ عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما فرماتے ہیں کہ سرکارِمدینۂ منوّرہ ، سردارِمکّۂ مُکرّمہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے حضرتِ سیِّدُنا ابو موسیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ایک سمندری جہاد میں بھیجا ۔ ایک اندھیری رات میں جب کشتی کے باد بان اُٹھا دیئے گئے تو ہاتف غیب نے پکارا: ’’ اے سفینے والو!ٹھہرو! کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہاللہ عَزَّوَجَلَّنے اپنے ذمّۂ کرم پر کیا لیا ہے؟ ‘‘ حضرتِ سیِّدُنا ابو موسیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: ’’ اگر تم بتا سکتے ہو تو ضرور بتاؤ۔ ‘‘ اُس نے کہا: ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّنے اپنے ذِمّۂ کرم پر لے لیا ہے کہ جو شدید گرمی کے دن اپنے آپ کواللہ عَزَّوَجَلَّکے لئے پیاسا رکھےاللہ عَزَّوَجَلَّاسے سخت پیاس والے دن( یعنی قیامت میں ) سیراب کرے گا۔ ‘‘ راوی فرماتے ہیں : حضرتِ سیِّدُنا ابو موسیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی عادت تھی کہ سخت گرمی کے دن روزہ رکھتے تھے۔
(اَلتَّرْغِیْب وَالتَّرْھِیْب ج۲ص۵۱حدیث۱۸)
تابعی بزرگ حضرتِ سیِّدُنا عبد اللہ بن رَباح اَنصاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ البَارِیفرماتے ہیں ، میں نے ایک راہِب سے سنا : ’’ قِیامت کے دن دستر خوان بچھائے جا ئیں گے، سب سے پہلے روز ے دار اُن پر سے کھائیں گے۔ ‘‘ (ابنِ عَساکِر ج۵ص۵۳۴)