فیضان رمضان

قاعدے وضابطے:  ’’  اصل اشیا میں  اباحت ہے ‘‘  کی تفصیلات  ’’ اُصُوْلُ الرَّشاد ‘‘  صفحہ 99 تا 116 پر ملاحظہ فرمائیے)

 

دین میں  نئے اچھے طریقے نکالنے کی حدیث میں  اجا زت ہے:

 ’’ اَلْوَدَاع ماہِ رَمضان  ‘‘  کے  اشعار پڑھنے سننے سے لوگوں کے  دلوں پر چوٹ لگتی ،  رَمَضانُ الْمبارَک کی اَھَمِّیَّت قلوب میں  اُجا گر ہوتی،  اپنی کوتاہیاں یاد آتیں اور گناہوں سے توبہ کرنے کا ذِہن ملتا ہے لہٰذا یہ ایک عمدہ انداز ہے۔ بے شک قیامت تک کیلئے دین میں  اچھے اچھے طریقے ایجا د کرتے رہنے کی خود حدیثِ پاک میں  اجا زت مرحمت فرمائی گئی ہے چنانچہ فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمہے: جو کوئی اسلام میں  اچھا طریقہ جا ری کرے اس کے  بعد اُس طریقے پر عمل کیا گیا تواس طریقے پر عمل کرنے والوں جیساثواب اس(جا ری کرنے والے)  کو بھی ملے گااور اُن(عمل کرنے والوں )  کے  ثواب سے کچھ کم نہ ہو گا اور جو شخص اِسلام میں  برا طریقہ جا ر ی کرے اس کے  بعد اُس طریقے پر عمل کیا گیا تواس طریقے پر عمل کرنے والوں جیسا گناہ اس (جا ری کرنے والے) کوبھی ملے گا اور اُن(عمل کرنے والوں )  کے  گناہ میں  کچھ کمی نہ ہو گی۔ ( مُسلم ص۱۴۳۸، حدیث۱۰۱۷)  

عاشِقانِ ماہِ رَمضاں رو رہے ہیں پھوٹ کر             دل بڑا بے چین ہے اَفسردہ روح و جا ن ہے

داستانِ غم سنائیں کس کو جا  کر آہ! ہم       یا رسولَ اللّٰہ! دیکھو چل دیا رَمضان ہے (وسائلِ بخشش ص۷۰۲)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 ’’ الوداع ‘‘  سننے سے توبہ و نیکی کاجذبہ ملتا ہے:

خلیفۂ امام احمد رضا خان، مفسِّرِ قراٰن، صاحِبِ تفسیر خزائن العرفان صدرُ الاْفاضِل حضرتِ علامہ مولانا مفتی سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِی سے بھی  ’’ الوداع ماہِ رَمضان ‘‘  پڑھنے کے  متعلق سوال ہوا جس کا جواب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اتنا خوب صورت دیا کہ اس کا ایک ایک لفظ اُمت کی خیر خواہی،  نیکی کی دعوت کے  جذبے ،  مسلمانوں کی اصلاح وفَلاح کا درد اور احکامِ اسلامیہ کی حکمتوں پر مشتمل ہے اُس سُوال جواب کے  بعض اِقتباسات مع خلاصہ ملاحظہ فرمایئے:  سوال: رَمَضانُ المبارَک کے  اَخیر جمعے کو خُطبۃُ الوَداعپڑھاجا تا ہے جس میں  رَمَضانُ الْمبارَک کے  فضائل و برکات کا بیان ہوتا ہے اور ا س ماہِ مبارَک کے  رخصت ہونے اور ایسے بابرکت مہینے میں  حسنات وخیرات (یعنی نیکیوں اور بھلائیوں )  کے  ذخیرے جمع نہ کرنے پر حسرت و افسوس اور آیندہ کے  لئے لوگوں کو عملِ خیر کی ترغیب اور باقی ایّامِ رَمضان میں  کثرتِ عبادت کا شوق دلایا جا تا ہے،  مسلمان اس خطبے کو سن کر خوب روتے اور گناہوں سے توبہ و استغفار کرتے اور آیندہ کے  لئے نیکی کاعزم کرتے ہیں ۔ مذکورہ بالا کام جا ئز ہے یا نہیں ؟کیونکہ بعض لوگ الوداع پڑھنے سے منع کرتے ہیں ۔

جواب:  صدرُ الافاضِل حضرتِ علّامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِی نے اس خطبے سے منع کرنے والوں کے   اعتراضات کا جواب دیا چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی عبارات کا خلاصہ یہ ہے کہ :  اِن منع کرنے والوں کے  پاس ممانعت کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے اور نہ وہ کوئی ایک حدیث یا ایک فقہی عبارت اس کے  عَدَمِ جواز (یعنی ناجا ئز ہونے)  میں  پیش کرسکتے ہیں ۔ مگرایسے لوگوں کا طریقہ ہی یہ ہے کہ وہ اپنی ذاتی رائے اور خیال کودین میں  داخل کر دیتے ہیں اور اپنے خیال سے جس چیز کو چاہتے ہیں نا جا ئز کر ڈالتے ہیں ! آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ مزید فرماتے ہیں :  خُطبۃُ الوَداع آخر کس طرح ناجا ئز ہوگیا؟خطبے میں  جو چیزیں شرعاً مطلوب ہیں (یعنی شریعت جو چیزیں چاہتی ہے)  ان میں  سے کونسی ان میں  نہیں پائی جا تی؟ یا کون سا امر ممنوع  (یعنی ایسا کام جسے اسلام نے منع فرمایا ہو وہ)  اس میں  داخل ہے؟ تذکیر (یعنی کوئی ایسی بات جس سے مسلمانوں کو نصیحت ہو) خطبے کی سنتوں میں  سے ایک سنت ہے۔ رَمَضانُ الْمبارَک کے  گزرے ہوئے اَیام (یعنی دنوں )  میں  عملِ خیر (یعنی نیکیاں رہ جا نے ) پر حسرت و افسوس اور بابرکت ایّام کو غفلت میں  گزارنے پر قلق وندامت (یعنی پچھتاوا)  اور (اس مبارَک )  مہینے کی رخصتی کے  وقت اپنی گزشتہ کوتاہیوں (یعنی گزری ہوئی سُستیوں )  کو مدنظر لا کر آیندہ کے  لیے تَیَقُّظْ ( یعنی ہوشیاری)  و بیداری اور مسلمانوں کو عملِ خیر کی تحریص وتشویق کا(یعنی نیکیوں پر ابھارنے کا) یہ بہترین طریقۂ تذکیر (یعنی نصیحت کا بہت اچّھا انداز )  ہے اور اِس (اندازِ  ’’ الوادعِ ماہِ رَمَضان ‘‘ )  میں  نہایت نافع و سود مند نصیحت و پَند (یعنی انتہائی مفید وعظ ونصیحت )  ہے،  اس کا یہ اثر ہوتا ہے کہ روتے روتے لوگوں کی ہچکیاں بندھ جا تی ہیں اور انہیں سچی توبہ نصیب ہوتی ہے،  بارگاہِ الٰہی میں  اِستغفار کرتے ہیں ،  آیندہ کے  لیے عملِ نیک کامصمم (یعنی پکا) ارادہ کر لیتے ہیں ۔ اِس تذکیر (یعنی وعظ و نصیحت)   کو فقہا نے سنت فرمایا ہے ۔ فتاویٰ عالمگیری میں  ہے:  (عَاشِرُہَا )  اَلْعِظَۃُ وَ التَّذْکِیرُ۔ یعنی  ’’ خطبے کی دسویں سنت پندو نصیحت (یعنی نیکی کی دعوت) ہے۔ ‘‘  (فتاویٰ صدر الافاضل ص۴۶۶ تا ۴۸۲)

 صدرُ الافاضل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے  فتوے سے حاصل ہونے والے 9مدنی پھول

٭رَمَضانُ المبارَک کے  آخری دنوں میں  الوداع پڑھنے سننے سے نیکیاں رہ جا نے پر غم و افسوس ہوتا ہے جو کہ نہایت محمود یعنی پسندیدہ کام ہے اور ٭

Index