{۱۷} مکھی حَلْق میں چلی گئی روزہ نہ گیا اور قَصْداً (یعنی جا ن بو جھ کر) نگلی تَو چلاگیا۔ (عالمگیری ج۱ص۲۰۳)
{۱۸} بھولے سے کھانا کھارہے تھے ، یا دآتے ہی لقمہ پھینک دیا یا پانی پی رہے تھے یاد آتے ہی مُنہ کا پانی پھینک دیا تو روزہ نہ گیا ۔اگر مُنہ میں کا لقمہ یا پانی یادآنے کے باوُجود نگل گئے تو روزہ گیا۔ (اَیضاً)
{۱۹} صبح صادِق سے پہلے کھایا پی رہے تھے اور صبح ہوتے ہی(یعنی سَحَری کا وَقتخَتْم ہوتے ہی) مُنہ میں کا سب کچھ اُگل دیا تَو روزہ نہ گیا، اور اگر نگل لیا تو جا تا رہا۔
(اَیضاً)
{۲۰} غیبت کی توروزہ نہ گیا۔اگر چہ غیبت سخت کبیرہ گناہ ہے، قراٰنِ مجید میں غیبت کرنے کی نسبت فرمایا: ’’ جیسے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا۔ ‘‘ اور حدیث پاک میں فرمایا: ’’ غیبت زِنا سے سخت تر ہے۔ ‘‘ (مُعجَم اَوسَط ج۵ص۶۳حدیث۶۵۹۰) غیبت کی وجہ سے روزے کی نورانیت جا تی رہتی ہے ۔ (بہارِشریعت ج۱ص۹۸۴)
{۲۱} جنابت (یعنی غسل فرْ ض ہونے) کی حالت میں صبح کی بلکہ اگرچہ سارے دِن جُنُب (یعنی بے غسل) رہا روزہ نہ گیا۔ (دُرِّ مُخْتار ج۳ص۴۲۸) مگر اتنی دیر تک قصداً (یعنی جا ن بُوجھ کر) غسل نہ کرنا کہ نَماز قَضا ہوجا ئے گناہ و حرام ہے ۔ حدیثِ شریف میں فرمایا: ’’ جس گھر میں جُنُب ہو اُس میں رَحمت کے فرشتے نہیں آتے۔ ‘‘
(ابوداوٗد ج۱ص۱۰۹حدیث۲۲۷ ، بہارِشریعت ج۱ص۹۸۴)
اب رَوزے کے مکروہات کابیان کیاجا تا ہے جن کے کرنے سے روزہ ہو تو جا تا ہے مگر اُس کی نورانیت چلی جا تی ہے۔لفظ ’’ نبی ‘‘ کے تین حروف کی نسبت سے پہلے تین احادیثِ مُبارَکہ ملاحظہ فرمایئے۔پھر فقہی اَحکام عرض کئے جا ئیں گے {۱} ’’ جو بری بات کہنا اور اُس پرعمل کرنا نہ چھوڑے تواللہ عَزَّوَجَلَّ کو اِس کی کچھ حاجت نہیں کہ اُس نے کھانا ، پینا چھوڑ دیا ہے ‘‘ ([1]) {۲} ’’ روزہ اس کا نام نہیں کہ کھانے اور پینے سے باز رہنا ہو، روزہ تویہ ہے کہ لغو و بیہودہ باتوں سے بچا جا ئے ‘‘ ([2]) {۳} ’’ روزہ سپر (یعنی ڈھال) ہے جب تک اُسے پھاڑا نہ ہو۔ عرض کی گئی : کس چیز سے پھاڑ ے گا؟ اِرشاد فرمایا: ’’ جھوٹ یا غیبت سے۔ ‘‘ ([3] )
’’ رَمَضَانُ المبارک ‘‘ کے بارہ حُرُوف کی نسبت
سے مکروہاتِ روزہ پر مشتمل 12 پیرے
{۱} جھوٹ ، چغلی ، غیبت ، گالی دینا، بیہودہ بات، کسی کو تکلیف دینا کہ یہ چیزیں ویسے بھی ناجا ئز وحرام ہیں روزے میں اور زِیادہ حرام اور ان کی وجہ سے روزے میں کراہت آتی ہے۔ (بہار ِ شریعت ج۱ ص۹۹۶)
{۲} روزہ دار کوبلا عذر کسی چیز کا چکھنا یا چبانا مکروہ ہے۔چکھنے کے لئے عذر یہ ہے کہ مَثَلاً عورت کا شوہر بد مزاج ہے کہ نمک کم یازیادہ ہوگا تواُس کی ناراضی کا باعث ہوگا، اِس وجہ سے چکھنے میں حرج نہیں ۔چبانے کیلئے عذر یہ ہے کہ اِتنا چھوٹا بچہ ہے کہ روٹی نہیں چبا سکتا اور کوئی نرم غذا نہیں جو اُسے کھلائی جا سکے ، نہ حیض و نفا س([4]) والی یا کوئی اور ایسا ہے کہ اُسے چبا کر دے۔ تو بچے کے کھلانے کیلئے روٹی وغیرہ چبانا مکروہ نہیں ۔ (دُرِّ مُخْتار ج۳ ص۴۵۳) مگر پوری احتیاط رکھئے کہ غذا کا کوئی ذرّہ حلق سے نیچے نہ اترنے پائے۔
چکھنے کے معنٰی وہ نہیں جو آج کل عام محاوَرہ ہے یعنی کسی چیز کا مزا دَریافت کرنے کیلئے اُس میں سے تھوڑا کھالیا جا تا ہے!کہ یوں ہو تو کراہت کیسی روزہ ہی جا تا رہے گابلکہ کفارے کے شرائط پائے جا ئیں تو کفارہ بھی لازِم ہوگا۔ چکھنے سے مراد یہ ہے کہ صرف زبان پر رکھ کر مزا دَریافت کرلیں اور اُسے تھوک دیں ، اُس میں سے حلق میں کچھ بھی نہ جا نے پائے۔ (بہار شریعت ج ۱ ص ۹۹۶)
{۳} کوئی چیز خریدی اور اُس کا چکھنا ضروری ہے کہ اگر نہ چکھا تَو نقصان ہوگاتو ایسی صورت میں چکھنے میں حرج نہیں ورنہ مکروہ ہے۔ (دُرِّمُخْتارج۳ص۴۵۳)
{۴} بیوی کا بوسہ لینا اور گلے لگانا اور بدن کو چھونا مکروہ نہیں ۔ ہاں یہ اَندیشہ ہوکہ اِنْزال ہو جا ئے گا(یعنی منی نکل جا ئے گی) یاجماع میں مبتلا ہوگا اور ہونٹ اور زبان