حصہ چہارم کے باب ’’ نمازِ مسافِر کا بیان ‘‘ یا مکتبۃ المدینہ کے رسالے ’’ مسافر کی نماز ‘‘ کامُطالعہ فرمائیں ۔
’’ الصَّلٰوۃ وَالسَّلامُ عَلَیْکَ یا سَیِّدی یارسولَ اللہ ‘‘ کے تینتیس حروف کی
نسبت سے روزہ نہ رکھنے کی اجا زات پر مبنی33 مَدَنی پھول
(وہ مجبوری ختم ہوجا نے کی صورت میں ہرروزے کے بدلے ایک روزہ قضا رکھنا ہوگا)
{۱} مسافر کو روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کا اِختیار ہے۔ (رَدُّالْمُحتَار ج۳ص۴۶۲)
{۲} اگر خود اُس مسافر کو اور اُس کے ساتھ والے کو روزہ رکھنے میں ضرر (یعنی نقصَان) نہ پہنچے توروزہ رکھنا سفر میں بہتر ہے اور اگر دونوں یا اُن میں سے کسی ایک کونقصان ہورہا ہو تو روزہ نہ رکھنا بہتر ہے۔ (دُرِّمُخْتار ج۳ ص۴۶۵)
{۳} مسافر نے ضَحْوَۂ کُبریٰ ([1]) سے پیشتر اِقامت کی اور ابھی کچھ کھایا نہیں توروزے کی نیت کرلینا واجب ہے ۔ (جَوْہَرہ ج۱ص۱۸۶)
{۴} دِن میں اگر سفر کیا تواُس دِن کا روزہ چھوڑ دینے کیلئے آج کا سفر عذر نہیں ۔ البتہ اگر دَورانِ سفر توڑ دیں گے توکفارہ لازِم نہ آئے گا مگر گناہ ضرور ہوگا۔ ( عالمگیری ج۱ص۲۰۶) اور روزہ قضا کرنا فرض رہے گا۔
{۵} اگر سفر شروع کرنے سے پہلے توڑدیا پھر سفر کیا تو (اگر کفارے کے شرائط پائے گئے تو قضا کے ساتھ ساتھ) کفارہ بھی لازِ م آئے گا۔ (اَیْضاً)
{۶} اگر دن میں سفر شروع کیا (اور دَورانِ سفر روزہ توڑ انہ تھا) اور مکان پرکوئی چیز بھول گئے تھے اسے لینے واپس آئے اور اب اگر آکر روزہ توڑ ڈالا تو(شرائط پائے جا نے کی صورت میں ) کفارہ بھی واجب ہے ۔اگر دَورانِ سفر ہی توڑدیا ہوتا تو صرف قضارکھنا فرض ہوتا جیسا کہ نمبر4 میں گزرا۔ (عالمگیری ج۱ص۲۰۷)
{۷} کسی کو روزہ توڑ ڈالنے پر مجبور کیا گیا توروزہ تو توڑ سکتا ہے مگر صبر کیا تو اَجر ملے گا۔ (رَدُّالْمُحتَار ج۳ص۴۶۲)
(مجبوری کی تعریف صفحہ143 پر دیکھ لیجئے)
{۸} سانپ نے ڈَس لیا اور جا ن خطرے میں پڑگئی تو روزہ توڑدے ۔ (اَیضاً)
{۹} جن لوگوں نے اِن مجبوریوں کے سبب روزہ توڑااُن پر فرض ہے کہ اُن روزوں کی قضا رکھیں اور اِن قضا روزوں میں ترتیب فرض نہیں ، لہٰذا اگر اُن روزوں کی قضا کرنے سے قبل نفل روزے رکھے تو یہ نفل روزے ہوگئے، مگرحکم یہ ہے کہ عذر جا نے کے بعدآیندہ رَمَضانُ الْمُبارَک کے آنے سے پہلے پہلے قضا رکھ لیں ۔ حدیثِ پاک میں فرمایا: ’’ جس پر گزشتہ رَمَضانُ الْمُبارَک کی قضا باقی ہے اور وہ نہ رکھے ، اُس کے اِس رَمَضانُ الْمبارَک کے روزے قبول نہ ہوں گے۔ ‘‘ (مسند امام احمد ج۳ص۲۶۶حدیث۸۶۲۹) اگر وَقت گزرتا گیا اور قضا روزے نہ رکھے یہاں تک کہ دُوسرا رَمضان شریف آگیا تو اب قضا روزے رکھنے کے بجا ئے پہلے اِسی رَمَضانُ الْمُبارَک کے روزے رکھ لیجئے، قضا بعد میں رکھ لیجئے۔بلکہ اگر غیر مریض و مسافر نے قضاکی نیت کی جب بھی قضا نہیں بلکہ اِسی رَمضان شریف کے روزے ہیں ۔
(دُرِّ مُختار ج۳ ص۴۶۵)
{۱۰} بھوک اور پیاس ایسی ہوکہ ہلاک (یعنی جا ن چلی جا نے ) کا خوفِ صحیح ہو یانقصان عقل کا اندیشہ ہو تو روزہ نہ رکھے ۔ (دُرِّمُختار، ردُّ الْمُحتار ج۳ص۴۶۲)
فاسق یا غیر مسلم ڈاکٹر روزہ نہ رکھنے کا مشورہ دے تو؟
{۱۱} فقہا ئِ کرام نے روزہ نہ رکھنے کیلئے جو رُخصتیں بیان کی ہیں ان میں یہ بھی داخل ہے کہ مریض کو مرض بڑھ جا نے یا دیر میں اچھا ہونے یا تندرست کو بیمار ہو جا نے کا گمانِ غالب ہو تو اِجا زت ہے کہ اُس دِن روزہ نہ رکھے۔اس گمانِ غالِب کے حصول(یعنی حاصل کرنے) کی تیسری صورت کسی مسلمان، حاذِق طبیب مستور یعنی غیر فاسِق ماہر ڈاکٹر کی خبر بھی ہے لیکن فی زمانہ ایسے طبیب (ڈاکٹر) کا ملنا بہت ہی مشکل ہے تو اب ضرورت ِ زمانہ کا لحاظ کرتے ہوئے اس بات کی اجا زت ہے کہ اگر کوئی قابلِ اعتماد فاسق یا غیر مسلم طبیب (ڈاکٹر) بھی روزہ رکھنے کو صحت کیلئے نقصان دِہ قرار دے اور روزہ ترک کرنے کا کہے اور مریض بھی اپنی طرف سے ظن و تحری (یعنی اچھی طرح غور) کرے جس سے اُسے روزہ توڑنا یا نہ رکھنا ہی سمجھ آئے تو اب اگر اس نے اپنے ظنِّ غالِب (یعنی مضبوط سوچ) پر عمل کرتے ہوئے روزہ توڑا یا روزہ نہ رکھا تو اسے گناہ نہیں ہوگا اور روزہ توڑنے کی صورت میں کفارہ بھی اس پر لازِم نہ ہوگا مگر قضا بہرصورت ضرور فرض ہوگی اور تحری(یعنی غور کرنے) میں یہ بھی ضروری ہے کہ مریض کا دل اِس بات پر جمے کہ یہ طبیب(یعنی ڈاکٹر) خواہ مخواہ روزہ توڑنے کا نہیں کہہ رہا اور اس میں بھی زیادہ بہتریہ ہوگا کہ ایک سے زائد ڈاکٹرز