لے لیجئے!عرض کی: میرا روزہ ہے ، حضرت سیِّدُنا عبدُاللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا: کیا تم اس سخت گرمی کے دن میں (نفل) روزہ رکھے ہوئے ہو جبکہ تم ان پہاڑوں میں بکریاں چرا رہے ہو! اُس نے کہا: اللہ کی قسم! میں یہ اس لیے کر رہا ہوں کہ زندگی کے گزرے ہوئے دِنوں کی تلافی(یعنی بدلہ ادا) کر لوں ۔آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے اُس کی پرہیزگاری کا امتحان لینے کے ارادے سے فرمایا : کیا تم اپنی بکریوں میں سے ایک بکری ہمیں بیچو گے؟ اس کی قیمت اور گوشت بھی تمہیں دیں گے تاکہ تم اس سے روزہ افطار کرسکو، اُس نے جواب دیا: یہ بکریاں میری نہیں ہیں ، میرے مالک کی ہیں ، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے آزمانے کے لیے فرمایا: مالک سے کہہ دینا کہ بھیڑیا (Wolf) ان میں سے ایک کو لے گیا ہے، غلام نے کہا: تو پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ کہاں ہے؟(یعنی اللہ تو دیکھ رہا ہے، وہ تو حقیقت کو جا نتا ہے اور اس پر میری پکڑ فرمائے گا ) جب آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمدینے واپَس تشریف لائے تو اُس کے مالِک سے غلام اورساری بکریاں خرید لیں پھر چرواہے کو آزاد کردیا اور بکریاں بھی اُسے تحفے میں دے دیں ۔ (شُعَبُ الْاِیمان ج۴ص۳۲۹حدیث۵۲۹۱ مُلَخَّصاً) اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجا ہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
بخاری شریف میں ہے، ایک صحابیرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بارگاہِ نبوی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضِر ہوئے اور عرض کی : رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! میں نے رَمَضان کے روزے کی حالت میں اپنی عورت سے ’’ قرْبت ‘‘ کی، میں ہَلاک ہوگیا، ( فرمائیے !اب میں کیا کروں ؟) سرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: غلام آزاد کرسکتے ہو؟عرض کی: نہیں ۔ فرمایا: کیا مُتَوَاتِر دو ماہ کے روزے رکھ سکتے ہو؟عرض کی: نہیں ۔ فرمایا: سا۶۰ٹھ مِسکینوں کو کھانا کھلاسکتے ہو؟ عرض کی: یہ بھی نہیں کرسکتا۔ اتنے میں بارگاہِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں کسی نے کچھ کَھجوریں ہَدِیَّۃً حاضر کیں ۔ سرکارِ نامدارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وہ ساری کَھجوریں اُس صَحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو عطا فرما دیں اور فرمایا: انہیں خیرات کردو(تمہارا کفارہ اداہوجا ئے گا) ۔ وہ بولے: اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! مدینے میں میرے گھرو الوں سے بڑھ کر کوئی خاندان محتاج نہیں ۔ سرکار نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سن کرہنسے یہاں تک کہ دندانِ مبارَک چمکنے لگے اور فرمایا: اَطْعِمْہُ اَھْلَکَ یعنی ’’ اپنے گھر والوں کو ہی کھلا دے ‘‘ (تیرا کفارہ ادا ہوجا ئے گا) ۔ (بُخاری ج۱ص۶۳۸حدیث۱۹۳۶ مُلَخَّصاً)
مُفَسّرِ شہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان نے اس حدیث کی جو شرح فرمائی ہے اس سے حاصل ہونے والے چند مَدَنی پھول پیش کرتا ہوں : ٭ کَفارے میں ترتیب معتبر ہے کہ اگرغلام آزاد کرسکتا ہے تو یہ کرے اگرغُلام نہ پائے تو دو ماہ کے مسلسل روزے اگر یہ ناممکن ہو تو ساٹھ مِسکینوں کا کھانا۔(کَفّا رے کی تفصیلی معلومات ’’ احکامِ روزہ ‘‘ کے صفحہ 152تا156پر ملاحظہ فرمائیے) ٭یعنی اپنا یہ کَفّارہ تُو خود بھی کھالے اور اپنے گھر والوں کو بھی کھلا دے تیرا کَفّارہ ادا ہوجا ئے گا۔یہ ہے حُضور اَنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا اختیار کہ اس کا کَفّارہ اس کے لیے انعام بنادیا، ورنہ کوئی شخص اپنا کَفّارہ اپنی زکوٰۃ نہ تو خود کھاسکتا ہے نہ اس کے بیوی بچّے مگر یہاں اس کا اپنا ہی کَفّارہ ہے اور اپنے آپ ہی کھا رہا ہے۔ (مراٰۃ ج۳ص۱۶۱، ۱۶۲ ملخّصاً ) ’’ نُزْہَۃُ الْقاری ‘‘ میں اس حدیث ِ پاک کے تحت ہے: حضور اَقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جسے چاہیں جس حکم سے چاہیں مستثنٰی(یعنی جدا) فرما دیں ، مسکینوں کو کھلانے کے بجا ئے خود کھانے اور اپنے اہل وعیال کو کھلانے کا حکم دیا۔ (نزہۃ القاری ج۳ص۳۳۵ مُلَخّصاً)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۴) صِدّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے لاکھ درہم لُٹا دیئے!:
ایک بار حضرتِ سَیِّدُنا امیرِ مُعاوِیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اُمُّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صدیقہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کی خدمت میں ایک لاکھ دَراہم بھیجے، تو آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے وہ سب دِرہم ایک ہی روز میں راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں تقسیم کردئیے اور اپنے لیے کچھ نہ رکھا اور اُس روز آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا خود روزے سے تھیں ۔حضرتِ سَیِّدَتُنا بریرہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے عرض کی: آپ کا روزہ ہے اگر اس میں سے ایک دِرْہم کا گوشت خرید لیتیں تو ہم اس سے روزہ اِفطار کرتے۔ فرمایا: اگر تم یاد دلاتیں تو بچالیتی۔(اَلْمُستَدرَک ج۴ص۱۷ حدیث۶۸۰۵ ) اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجا ہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
عاشقانِ رسول سے ملاقات کی برکات: