{۷} ماں پراپنے چھوٹے بچوں کی طرف سے صَدَقَۂِ فِطْر دینا واجب نہیں ۔ ( رَدُّ الْمُحتار ج ۳ ص ۳۶۸)
{۸} باپ پر اپنی عاقِل بالِغ اولاد کا فِطْرہ واجِب نہیں ۔ (دُ رِّمُختار مع رَدِّالْمُحتار ج۳ص۳۷۰)
{۹} کسی صحیح شرعی مجبوری کے تحت روزے نہ رکھ سکایا مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ بغیر مجبوری کے رَمَضانُ الْمُبارَک کے روزے نہ رکھے اُس پر بھی صاحب نصاب ہونے کی صورت میں صَدَقَۂِ فِطْر واجِب ہے۔ (رَدّالْمُحتار ج ۳ ص ۳۶۷)
{۱۰} بیوی یا بالغ اولاد جن کا نفقہ وغیرہ (یعنی روٹی کپڑے وغیرہ کا خرچ) جس شخص کے ذِمے ہے، وہ اگر اِن کی اجا زت کے بغیر ہی اِن کا فطرہ ادا کردے تو ادا ہوجا ئے گا ۔ہاں اگر نفقہ اُس کے ذِمے نہیں ہے مَثَلاً بالِغ بیٹے نے شادی کرکے گھر الگ بسالیا اور اپنا گزارہ خودہی کرلیتا ہے تو اب اپنے نان نفقے(یعنی روٹی کپڑے وغیرہ ) کا خود ہی ذِمے دار ہوگیا ہے۔لہٰذا ایسی اولاد کی طرف سے بغیر اجا زتفطرہ دے دیا تو ادا نہ ہوگا۔
{۱۱} بیوی نے بغیر حکمِ شوہر اگر شوہر کا فطرہ ادا کردیا تو ادا نہ ہوگا۔ (بہار شریعت ج۱ص۳۹۸ مُلَخَّصاً)
{۱۲} عِیدُ الْفِطْر کی صبح صادِق طلوع ہوتے وَقت جو صاحبِ نصاب تھا اُسی پر صَدَقَۂِ فِطْر واجب ہے ، اگر صبحِ صادِق کے بعد صاحبِ نصاب ہوا تو اب واجب نہیں ۔ (ماخوذ از عا لمگیری ج۱ص۱۹۲)
{۱۳} صَدَقَۂِ فِطْر ادا کرنے کا اَفضل وَقت تو یِہی ہے کہ عید کو صبح صادِق کے بعد عید کی نمازادا کرنے سے پہلے پہلے ادا کردیا جا ئے، اگر چاند رات یا رَمَضانُ الْمُبارَک کے کسی بھی دِن بلکہ رَمضان شریف سے پہلے بھی اگر کسی نے ادا کردیا تب بھیفطرہ ادا ہوگیا اور ایسا کرنا بالکل جا ئز ہے۔ (اَیضاً)
{۱۴} اگر عید کا دِن گزر گیا اور فطرہ ادا نہ کیا تھا تب بھی فطرہ ساقط نہ ہوا، بلکہ عمر بھر میں جب بھی ادا کریں ادا ہی ہے ۔ (اَیضاً)
{۱۵} صَدَقَۂِ فِطْر کے مصا رِف وہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں ۔یعنی جن کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں اِنہیں فطرہ بھی دے سکتے ہیں اور جن کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے اُن کوفطرہبھی نہیں دے سکتے۔ (اَیضاًص۱۹۴ مُلَخّصاً)
{۱۶} سادات کرام کو صَدَقَۂِ فِطْر نہیں دے سکتے۔ کیوں کہ یہ بنی ہاشم سے ہیں ۔ بہارِ شریعت جلد اوّل صفحہ931پر ہے: بنی ہاشم کوزکاۃ(فطرہ) نہیں دے سکتے۔ نہ غیر انھیں دے سکے ، نہ ایک ہاشمی دوسرے ہاشمی کو۔ بنی ہاشم سے مراد حضرت علی و جعفر و عقیل اور حضرت عباس و حارث بن عبدالمطلب کی اولادیں ہیں ۔
گیہوں یا اس کا آٹا یا ستو آدھا صاع(یعنی دوکلو میں 80 گرام کم ) (یاان کی قیمت) ، کھجور یامُنَـقّٰی یا جو یا اس کا آٹا یا ستو ایک صاع( یعنی چار کلو میں 160 گرام کم) (یاان کی قیمت) یہ ایک صَدَقَۂِ فِطْر کی مقدار ہے۔ (عالمگیری ج۱ص۱۹۱، دُرِّمُختارج۳ص۳۷۲) ’’ بہار شریعت ‘‘ میں ہے : اعلٰی درجہ کی تحقیق اور احتیاط یہ ہے کہ: صاع کا وزن تین سو ا۳۵۱کاون روپے بھر ہے اور نصف صاع ایک۱۷۵ سو پَچھتَّر روپے اَٹھنی بھر اوپر۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۹۳۹ )
ان چار چیزوں کے علاوہ اگر کسی دوسری چیز سے فطرہ ادا کرنا چاہے، مثلاً چاول، جوار، باجرہ یا اور کوئی غلہ یا اور کوئی چیز دینا چاہے تو قیمت کا لحاظ کرنا ہوگا یعنی وہ چیز آدھے صاع گیہوں یا ایک صاع جو کی قیمت کی ہو، یہاں تک کہ روٹی دیں تو اس میں بھی قیمت کا لحاظ کیا جا ئے گا اگرچہ گیہوں یا جو کی ہو۔ (اَیضاً)
قبرمیں ایک ہزار انوار داخل ہوں :
منقول ہے کہ جو شخص عیدکے دِن تین سو مرتبہ ’’ سُبْحٰنَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ ‘‘ پڑھے اورفوت شدہ مسلمانوں کی اَرواح کو اِس کا ایصالِ ثواب کرے تو ہر مسلمان کی قَبْر میں ایک ہزار انوار داخل ہوتے ہیں اور جب وہ پڑھنے والا خود مرے گا، اللہ تَعَالٰی اُس کی قَبْر میں بھی ایک ہزار انوار داخِل فرمائیگا۔ (مُکَاشَفَۃُ القُلُوب ص ۳۰۸)
میٹھے میٹھے اِسلا می بھائیو!اب اُن باتوں کا بیان کیا جا تا ہے جو عیدین (یعنی عید الفطر اور بقر عید دونوں ) میں سُنَّت ہیں ۔چنانچہ حضرتِ سَیِّدُنا بریدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ تاجدارِ رسالت ، شہنشاہِ نُبُوَّت ، پیکر جودو سخاوت، سراپا رَحمت، محبوبِ رَبُّ الْعِزَّت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم عِیْدُ الفِطْر کے دِن کچھ کھا کر نَماز کیلئے تشریف لے جا تے تھے اور عیدالْاَضْحٰی کے روز اُس وقت تک نہیں کھاتے تھے جب تک نَماز سے فارِغ نہ ہو جا تے۔ ( ترمذی ج۲ ص ۷۰ حدیث ۵۴۲) اور ’’ بخاری ‘‘ کی رِوایت حضرتِ سَیِّدُنا اَنس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ہے کہ عیدالفطر کے دِن(نمازِ عید کیلئے) تشریف نہ لے جا تے جب تک چند کھَجوریں نہ تناول فرمالیتے او روہ طاق ہوتیں ۔(بُخاری ج۱ ص ۳۲۸ حدیث ۹۵۳) حضرتِ سَیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے رِوایت ہے کہ نبیِّ رَحمت، شفیعِ امّت، شہَنْشاہِ نُبُوَّت، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّمعید کو (نمازِ عید کیلئے ) ایک راستے سے تشریف لے جا تے اور دُوسرے راستے سے واپس تشریف لاتے۔ ( تِرمذِی ج۲ص۶۹حدیث۵۴۱)