حضرتِ سَیِّدُنا اسمٰعیل حَقِّی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِینقل فرماتے ہیں : یہ رات آفات سے سلامتی کی ہے کہ اس میں رَحمت اور خیر (یعنی بھلائی) ہی زمین پر اترتی ہے۔ اور نہ اِس میں شیطان برائی کروانے کی طاقت رکھتا ہے اور نہ جا دو گر کا جا دو اِس میں چلتاہے۔ (رُوْحُ الْبَیان ج۱۰ص۴۸۵ مُلَخَّصاً )
حضرتِ سَیِّدُنا عبادَہ بن صامت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے بارگاہِ رسالت میں شبِ قدر کے بارے میں سوال کیا تو سرکارِ مدینۂ منوّرہ ، سردارِ مکّۂ مکرّمہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ شب قدر رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخری عشرے کی طاق راتوں یعنی اِکیسو یں ، تئیسویں ، پچیسویں ، ستائیسویں یا اُنتیسویں شب میں تلاش کرو ۔تو جو کوئی اِیمان کے ساتھ بہ نیتِ ثواب اِس مبارَک رات میں عبادت کرے ، اُس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دئیے جا تے ہیں ۔ اُس کی علامات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ مبارَک شب کھلی ہوئی ، روشن اور بالکل صاف وشفاف ہوتی ہے، اِس میں نہ زیادہ گرمی ہوتی ہے نہ زیادہ سردی بلکہ یہ رات معتدل ہوتی ہے، گویا کہ اِس میں چاند کھلا ہوا ہوتا ہے، اِس پوری رات میں شیاطین کو آسمان کے ستارے نہیں مارے جا تے ۔مزید نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اِس رات کے گزرنے کے بعد جو صبح آتی ہے اُس میں سورج بغیر شعاع کے طلوع ہوتا ہے اور وہ ایسا ہوتا ہے گویا کہ چودھویں کا چاند ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ اِس دِن طلوعِ آفتاب کے ساتھ شیطان کو نکلنے سے روک دیا ہے۔ ‘‘ (اِس ایک دِن کے علاوہ ہر روز سورج کے ساتھ ساتھ شیطان بھی نکلتا ہے) (مُسند اِمام احمد ج۸ص۴۰۲، ۴۱۴حدیث۲۲۷۷۶، ۲۲۸۲۹)
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو!حدیثِ پاک میں فرمایا گیا ہے کہ رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں یا آخری رات میں سے چاہے وہ 30 ویں شب ہو کوئی ایک رات شب قدر ہے ۔اِس رات کو مخفی(یعنی پویشدہ) رکھنے میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ مسلمان اِس رات کی جستجو (یعنی تلاش ) میں ہر رات اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت میں گزارنے کی کوشِش کریں کہ نہ جا نے کون سی رات، شب قدر ہو۔
سمندر کا پانی میٹھا لگا(حکایت) :
حضرتِ سَیِّدُنا عثمان ابن ابی الْعاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے غلام نے اُن سے عرض کی: ’’ اے آقا(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ) ! مجھے کشتی بانی کرتے ایک عرصہ گزرا، میں نے سمندر کے پانی میں ایک ایسی عجیب بات محسوس کی۔ ‘‘ پوچھا: ’’ وہ عجیب بات کیا ہے ؟ ‘‘ عرض کی: ’’ اے میرے آقا(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ) !ہر سال ایک ایسی رات بھی آتی ہے کہ جس میں سمندر کا پانی میٹھا ہوجا تا ہے۔ ‘‘ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے غلام سے فرمایا: ’’ اِس بار خیال رکھنا جیسے ہی رات میں پانی میٹھا ہو جا ئے مجھے مطلع کرنا۔ ‘‘ جب رَمضان کی ستائیسویں رات آئی تو غلام نے آقا سے عرض کی کہ ’’ آقا! آج سمندر کا پانی میٹھا ہوچُکا ہے۔ ‘‘
(تفسِیرِ عزیزی ج۳ص۲۵۸، تفسیر کبیر ج۱۱ص۲۳۰)
اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِیْن بِجا ہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
ہمیں علامات کیوں نظر نہیں آتیں ؟:
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! شب قدر کی مُتَعَدِّدعلامات کا ذِکر گزرا ۔ ہمارے ذِہن میں یہ سوال اُبھر سکتا ہے کہ ہماری عمر کے کافی سال گزرے ہر سال شب قدر آتی اور تشریف لے جا تی ہے مگر ہمیں تو اب تک اِس کی علامات نظر نہیں آئیں ؟اِ س کے جواب میں علمائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام فرماتے ہیں : اِن باتوں کا تَعَلُّق کشف و کرامت سے ہے، انہیں عام آدَمی نہیں دیکھ سکتا۔صِرف وُہی دیکھ سکتا ہے جس کو بصیرت (یعنی قلبی نظر) کی نعمت حاصل ہو۔ہر وَقت معصیت کی نجا ست میں لت پت رہنے والا گنہگار اِنسان اِن نظاروں کوکیسے دیکھ سکتا ہے! ؎
آنکھ والا ترے جوبن کا تماشا دیکھے
دِیدۂِ کور کو کیا آئے نظر کیا دیکھے
اُمّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے رِوایت ہے: نبیوں کے سرتاج ، صاحب معراج صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’ شب قدر، رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخری عشرے کی طاق راتوں (یعنی اِکیسویں ، تیئسویں ، پچیسویں ، ستائیسویں اوراُنتیسویں راتوں ) میں تلاش کرو۔ ‘‘
( بُخاری ج۱ص۶۶۱حدیث۲۰۱۷)
حضرتِ سَیِّدُنا عبدُ اللہ ابنِ عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا رِوایت کرتے ہیں : بحرو بر کے بادشاہ ، دو عالم کے شہنشاہ ، اُمت کے خیر خواہ، آمنہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاکے