رہا ہے ، دل میں حسرت ہوئی، کاش! میرے پاس بھی پیسے ہوتے اورمیں بھی برف خرید کر ٹھنڈا پانی پیتا۔ پھر فوراً ندامت ہوئی کہ میں نفس کی چال میں کیوں آگیا! اُنہوں نے عہد کیا کہ کبھی ٹھنڈا پانی نہ پیوں گا ۔لہٰذا سخت گرمی کے موسم میں بھی پانی کو گرم کرکے پیا کرتے تھے۔ ؎
نہَنگ([1]) و اَژدہا و شیر نر مارا تو کیا مارا
بڑے موذی کو مارا نفسِ اَمارہ کو گر مارا
رَمَضانُ الْمُبارَک کی آمد آمدتھی اور مشہور مؤَرخ حضرتِ وَاقدیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیکے پاس کچھ نہ تھا۔ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے اپنے ایک علوی دوست کی طرف یہ رُقعہ بھیجا : ’’ رَمضان شریف کا مہینا آنے والا ہے اور میرے پاس خرچ کیلئے کچھ نہیں ، مجھے قرضِ حسنہ کے طور پر ایک۱۰۰۰ ہزار دِرہم بھیجئے۔‘‘ چنانچہ اُس عَلَوی نے ایک ہزار دِرہم کی تھیلی بھیج دی۔تھوڑی دیر کے بعد حضرتِ واقدیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیکے ایک دوست کا رُقعہ حضرتِ وَاقدیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیکی طرف آگیا: ’’ رَمضان شریف کے مہینے میں خرچ کیلئے مجھے ایک ہزاردِرْہم کی ضرورت ہے۔ ‘‘ حضرتِ واقدیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِینے وُہی تھیلی وہاں بھیج دی۔ دوسرے روز وہی علوی دوست جن سے حضرتِ واقدیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِینے قرض لیا تھااور وہ دوسرے دوست جنہوں نے حضرت واقدیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیسے قرض لیا تھا۔ دونوں حضرتِ وَاقدی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیکے گھر آئے ۔ علوی کہنے لگے: رَمَضانُ الْمُبارَک کا مہینا آرہا ہے اور میرے پاس ان ہزار درہموں کے سِوا ا ور کچھ نہ تھا۔ مگر جب آپ کا رُقْعہ آیا تو میں نے یہ ہزار دِرْہم آپ کو بھیج دیئے اور اپنی ضرورت کیلئے اپنے اِن دوست کو رُقعہ لکھا کہ مجھے ایک ہزار دِرْہم بطورِ قرض بھیج دیجئے۔ انہوں نے وُہی تھیلی جو میں نے آپ کو بھیجی تھی، مجھے بھیج دی۔تو پتا چلا کہ آپ نے مجھ سے قرض مانگا ، میں نے اپنے اِن دوست سے قرض مانگا اور اِنہوں نے آپ سے مانگا۔ اور جوتھیلی میں نے آپ کو بھیجی تھی وہ آپ نے اسے بھیج دی اور اس نے وُہی تھیلی مجھے بھیج دی۔ پھر ان تینوں حضرات نے اتفاقِ رائے سے اس رقم کے تین حصے کرکے آپس میں تقسیم کر لئے۔ اُسی رات حضر تِ واقدیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیکو خواب میں جنابِ رِسالت مآب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زیارت ہوئی اور فرمایا: کل تمہیں بہت کچھ مل جا ئے گا ۔ چنانچہ دوسرے روز امیریَحیٰی بَرْمَکِی نے حضر تِ واقدیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیکو بلا کر پوچھا: ’’ میں نے رات خواب میں آپ کو پریشان دیکھا ہے ، کیا بات ہے؟ ‘‘ حضرتِ واقدیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِینے سار ا قصہ سنایا۔ تو یَحیٰی بَرْمَکِی نے کہا: ’’ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپ تینوں میں سے کون زیادہ سخی ہے، بے شک آپ تینوں ہی سخی اور واجب ا لاحترام ہیں ۔ پھراس نے تیس ہزار دِرْہم حضرتِ واقدیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیکو اور بیس بیس ہزار ان دونوں کو دئیے۔ اور حضرتِ واقدی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیکو قاضی بھی مقرر کردیا۔ ( حُجَّۃ اللہ عَلَی الْعٰلَمِین ص ۵۷۷ مُلَخَّصاً) اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجا ہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نیک بندے سخی اور پیکر ایثار ہوتے ہیں اور وہ اپنے اسلامی بھائی کی تکلیف دور کرنے کی خاطر اپنی مشکلات کی ذرّہ برابر پروا نہیں کرتے۔ اِس حکایت سے معلوم ہواکہ جودو سخاوت سے ہمیشہ فائدہ ہی ہوتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہاللہ عَزَّوَجَلَّکے مَحبوب، دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ تَعَالٰی کی رحمت سے امّت کے حالات سے باخبر ہیں اپنے غلاموں کی بگڑی بناتے ہیں ۔اللہ عَزَّوَجَلَّکی راہ میں ایثار کی بہت فضیلت ہے ۔ چنانچِہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ مغفرت نشان ہے: ’’ جو شخص کسی چیز کی خواہش رکھتا ہو، پھر اُ س خواہش کو روک کر اپنے اوپرکسی اور کو ترجیح دے، تو صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُسے بخش دیتا ہے۔ ‘‘ (ابنِ عَساکِر ج۳۱ ص۱۴۲)
(۷) روزہ دار کی قبر کی خوشبودار مِٹّی:
حضرت سَیِّدُناامام قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ وغیرہ کے اُستاذِحدیث حضرتِ سَیِّدُنا عبد اللہ بن غالب حدانی قُدِّسَ سِرُّہُ الرَّ بَّانِیشہید کر دیئے گئے ۔ تدفین کے بعد ان کی قَبْرشریف کی مٹی سے مشک کی خوشبو آتی تھی۔ کسی نے خواب میں دیکھ کر پوچھا: آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا گیا؟ کہا: ’’ اچھا معاملہ فرمایا گیا۔ ‘‘ پوچھا: آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکو کہاں لے جا یا گیا؟ کہا: ’’ جنت میں ۔ ‘‘ پوچھا: ’’ کون سے عمل کے باعث ؟ ‘‘ فرمایا: ’’ ایمانِ کامل، تہجُّد اور گرمیوں کے روزوں