فیضان رمضان

خود بند کرلیتے ہیں ۔ مُحمَّد رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں :  یُسْتَجا بُ لِاَحَدِ کُمْ مَا لَمْ یَعْجَلْ،  یَقُوْلُ:  دَعَوْتُ فَلَمْ یُسْتَجَبْ لِیْ۔ ترجمہ:   ’’ تمہاری دُعا قبول ہوتی ہے جب تک جلدی نہ کرو یہ مت کہوکہ میں  نے دُعا کی تھی قبول نہ ہوئی۔ ‘‘  (بُخاری ج۴ص۲۰۰حدیث۶۳۴۰)

            بعض تَواِس پر ایسے جا مے سے باہر(یعنی بے قابو )  ہوجا تے ہیں کہ اَعمال واَدعیہ (یعنی اَوراد و دُعاؤں) کے  اَثر سے بے اِعتقاد ، بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّکے  وَعدئہ کرم سے بے اِ عتماد،  وَالْعِیَاذُ بِاللہ الْکَرِیْمِ الْجَوَاد۔ ایسوں سے کہاجا ئے کہ اَے بے حیا!بے شرمو!!ذرا اپنے گریبان میں  منہ ڈالو۔اگر کوئی تمہارا برابر والا دَوست تم سے ہزار بار کچھ کام اپنے کہے اورتم اُس کا ایک کام نہ کروتو اپنا کام اُس سے کہتے ہوئے اَوّل تَو آپ لجا ؤ (شرماؤ) گے، (کہ)  ہم نے تواُس کا کہنا کیا ہی نہیں اب کس منہ سے اُس سے کام کو کہیں ؟اور اگر غرض دِیوانی ہوتی ہے(یعنی مطلب پڑا تو)  کہہ بھی دیا اور اُس نے (اگر تمہاراکام) نہ کیا تواصلاً محل شکایت نہ جا نو گے( یعنی اس بات پر شکایت کروگے ہی نہیں ظاہر ہے خود ہی سمجھتے ہو)  کہ ہم نے (اُس کاکام )  کب کیا تھا جو وہ کرتا۔

            اب جا نچو،  کہ تم مالِک عَلَی الْاِطْلَاق عَزَّ جَلَالُہٗ کے  کتنے اَحکام بجا لاتے ہو؟ اُس کے  حکم بجا  نہ لانا اور اپنی دَرخواست کا خواہی نخواہی (ہرصورت میں  ) قبول چاہنا کیسی بے حیائی ہے!

            او اَحمَق! پھرفرق دیکھ ! اپنے سر سے پاؤں تک نظر غور کر! ایک ایک رُوئیں میں  ہر وَقت ہر آن کتنی کتنی ہزار دَر ہزار دَر ہزار صَد ہزار بے شمارنعمتیں ہیں ۔تو سوتا ہے اور اُس کے  معصوم بندے (یعنی فرشتے) تیری حفاظت کو پہرا دے رہے ہیں ، تو گناہ کررہا ہے اور (پھربھی)  سرسے پاؤں تک صحت و عافیت، بلاؤں سے حفاظت ، کھانے کا ہضم ،  فضلات (یعنی جسم کے  اندر کی گندگیوں )  کا دَفع ،  خون کی رَوانی ،  اَعضا میں  طاقت،  آنکھوں میں  روشنی ۔ بے حساب کرم بے مانگے بے چاہے تجھ پر اُتر رہے ہیں ۔ پھر اگر تیری بعض خواہشیں عطا نہ ہوں ، کس منہ سے شکایت کرتا ہے ؟ تو کیا جا نے کہ تیرے لئے بھلائی کا ہے میں  ہے!تو کیا جا نے کیسی سخت بلاآنے والی تھی کہ اِس (بظاہرنہ قبول ہونے والی )  دُعا نے دَفْعْ کی ، تو کیا جا نے کہ اِس دُعا کے  عوض کیسا ثواب تیرے لئے ذَخیرہ ہورہا ہے ، اُس کا وَعدہ سچا ہے اور قبول کی یہ تینوں صورتیں ہیں جن میں  ہر پہلی،  پچھلی سے اعلٰی ہے۔ ہاں ،  بے اِعتقادی آئی تویقین جا ن کہ ماراگیااور اِبلیسِ لعین نے تجھے اپنا ساکر لیا۔ وَالْعِیَاذُ بِاللہ سُبْحٰنَہٗ وَتَعَالٰی ( اور اللہ کی پناہ وہ پاک ہے اورعظمت والا) ۔

       اَے ذَلیل خاک! اے آبِ ناپاک!اپنا منہ دیکھ اور اِس عظیم شرف پر غور کر کہ اپنی بارگاہ میں  حاضر ہونے ،  اپنا پاک،  متعالی (یعنی بلند)  نام لینے،  اپنی طرف منہ کرنے،  اپنے پکارنے کی تجھے اجا زت دیتا ہے۔ لاکھوں مرادیں اِس فضل عظیم پر نثار۔

            اوبے صبرے! ذرابھیک مانگنا سیکھ۔اِس آستانِ رَفیع کی خاک پر لَوٹ جا ۔ اور لپٹا رہ اور ٹکٹکی بندھی رکھ کہ اب دیتے ہیں ،  اب دیتے ہیں !بلکہ پکارنے ،  اُس سے مناجا ت کرنے کی لذت میں  ایسا ڈوب جا  کہ اِرادہ ومراد کچھ یاد نہ رہے،  یقین جا ن کہ اِس دروازے سے ہرگز محروم نہ پھریگا کہ مَنْ دَقَّ بَابَ الْکَرِیْم انْفَتَحَ (جس نے کریم کے  دروازے پر دستک دی تو وہ اس پر کھل گیا)  وَبِا للّٰہِِ التَّوْفِیْقُ  (اور توفیق اللہ عَزَّوَجَلَّکی طرف سے ہے)  ۔( فضائلِ دُعا ص۱۰۰ تا ۱۰۴ )  

دُعا کی قبولیت میں  تاخیر تو کرم ہے:

                        حضرت سَیِّدُنا مولانا نقی علی خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنفرماتے ہیں :  اَے عزیز! تیرا پروَردگارعَزَّوَجَلَّفرماتا ہے:

اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِۙ-           (پ۲، البقرۃ: ۱۸۶)

تَرجَمہ:  میں  دُعا مانگنے والے کی دُعا قبول کرتا ہوں جب مجھ سے دُعا مانگے۔

فَلَنِعْمَ الْمُجِیْبُوْنَ٘ۖ(۷۵)       (پ۲۳، صٰفٰت: ۷۵)

تَرجَمہ:  ہم کیا اَچھے قبول کرنے والے ہیں ۔

اُدْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ- (پ۲۴، مؤمِن: ۶۰)

تَرجَمہ:  مجھ سے دُعا مانگو میں  قَبول فرماؤں ۔

             پس یقین سمجھ کہ وہ تجھے اپنے دَر سے محروم نہیں کرے گااوراپنے وَعدے کو وَفا فرمائے گا۔وہ اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرماتا ہے :  

وَ اَمَّا السَّآىٕلَ فَلَا تَنْهَرْؕ(۱۰)  (پ۳۰، الضحٰی: ۱۰)

تَرجَمہ : سائِل کو نہ جِھڑک ۔

            آپ  کس طرح اپنے خوانِ کرم سے دُور کرے گا!بلکہ وہ تجھ پر نظر کرم رکھتا ہے کہ تیری دُعا کے  قبول کرنے میں  دیر کرتا ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی کُلِّ حال۔  

(فضائلِ دُعا ص۹۸)

 

Index