خلیلِ ملّت حضرتِ علامہ مولانا مفتی محمد خلیل خان قادِری برکاتی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِیفرماتے ہیں : یہ روزے عید کے بعد لگاتار رکھے جا ئیں تب بھی مضایقہ نہیں اور بہتر یہ ہے کہ مُتَفَرِّق (یعنی جدا جدا ) رکھے جا ئیں یعنی(جیسے) ہر ہفتے میں دو روزے اور عید الفطر کے دوسرے روز ایک روزہ رکھ لے اور پورے ماہ میں رکھے تو اوربھی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ (سنی بہشتی زیور ص۳۴۷) اَلْغَرَض عیدُ الْفِطْرکا دن چھوڑ کر سارے مہینے میں جب چاہیں شش عید کے روزے رکھ سکتے ہیں ۔
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
ذوالحجۃ الحرام کے ابتدائیی دس دن کے فضائل:
فتاوٰی رضویہ جلد10صفحہ649پر ہے: صوم ( یعنی روزہ ) وغیرہ اعمالِ صالحہ ( یعنی نیک اعمال ) کے لئے بعدرَمَضانُ المبارَک سب دنوں سے افضل عشرۂ ذی الحجہ ہے۔
’’ اللہ ‘‘ کے چار حُرُوف کی نسبت سےعشرۂ ذوالحجۃ الحرام کے
فضائل کے متعلق 4 فرامین مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
{۱} ’’ ان دس دنوں سے زیادہ کسی دن کا نیک عملاللہ عَزَّوَجَلَّکو محبوب نہیں ۔ ‘‘ صحا بۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عرض کی : ’’ یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور نہ راہِ خداعَزَّوَجَلَّمیں جہاد ؟ ‘‘ فرمایا : ’’ اور نہ راہِ خدا عَزَّوَجَلَّمیں جہاد ، مگر وہ کہ اپنے جا ن ومال لے کر نکلے پھر ان میں سے کچھ واپس نہ لائے۔ ‘‘ (یعنی صرف وہ مجا ہد افضل ہوگاجو جا ن ومال قربان کرنے میں کامیاب ہوگیا) (بُخارِی ج۱ص۳۳۳حدیث۹۶۹)
{۲} ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّکو عَشَرَۂ ذُوالْحجَّہسے زیادہ کسی دن میں اپنی عبادت کیا جا نا پسندیدہ نہیں اِس کے ہردن کا روزہ ایک سال کے روزوں اور ہرشب کاقیام شبِ قدر کے برابر ہے۔ ‘‘
( تِرْمِذِی ج۲ص۱۹۲حدیث۷۵۸)
{۳} ’’ مجھے اللہ عَزَّوَجَلَّپر گمان ہے کہ عرفہ (یعنی9 ذُو الحِجَّۃِ الْحرام) کا روزہ ایک سال قبل اور ایک سال بعدکے گناہ مٹادیتا ہے۔ ‘‘ ( مُسلِم ص۵۹۰حدیث۱۱۶۲)
{۴} عرفہ ( یعنی ۹ ذوالحِجَّۃِ الحرام) کا روزہ ہزار روزوں کے برابر ہے۔(شُعَبُ الْاِیْمَان ج۳ ص۳۵۷حدیث۳۷۶۴) (مگر عرفات میں حاجی کو عرفے کا روزہ مکروہ ہے، ) حضرتِ سَیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرماتے ہیں : سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے عر فے کے دِن ( یعنی ۹ ذُوالحِجَّۃِ الحرامکے روزحاجی کو ) عرفات میں روزہ ر کھنے سے منع فرمایا۔ ( ابْنُ خُزَیْمَۃ ج۳ص۲۹۲حدیث۲۱۰۱)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
ہر مَدَنی ماہ (یعنی سن ہجری کے مہینے) میں کم ازکم تین۳ روزے ہر اسلامی بھائی اور اسلامی بہن کو رکھ ہی لینے چاہئیں ۔ اس کے بے شمار دُنیوی اور اُخروِی فوائدہیں ۔ بہتر یہ ہے کہ یہ روزے ’’ ایامِ بِیْض ‘‘ یعنی چاند کی 13، 14 اور 15 تاریخ کو رکھے جا ئیں ۔
ایامِ بیض کے روزوں کے متعلق3رِوایات
{۱} اُمُّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا حفصہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاسے رِوایت ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّکے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ چار چیزیں نہیں چھوڑتے تھے، عاشور۱ کا روزہ اور عشرئہ ذُوالْحِجَّہ کے روزے اور ہر مہینے میں تین۳ دن کے روزے اورفجر(کے فرض ) سے پہلے دو۲ رَکْعَتَیں (یعنی دوسُنَّتیں ) ۔ (نَسَائی ص۳۹۵ حدیث۲۴۱۳) حدیثِ پاک کے اس حصے ’’ عشرۂ ذُوالْحِجَّہ کے روزے ‘‘ سے مراد ذُوالْحِجَّہکے ابتدائیی نو۹ دنوں کے روزے ہیں ، ورنہ دسذُوالْحِجَّہ کو روزہ رکھنا حرام ہے۔ (ماخوذ ازمراٰۃ المناجیح ج۳ ص۱۹۵)
{۲} حضرتِ سَیِّدُنا ابنِ عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے رِوایت ہے کہ طبیبوں کے طبیب ، اللہ کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اَیّامِ بِیْض میں بغیر روزہ کے نہ ہوتے نہ سفر میں نہ حضر(یعنی قیام) میں ۔ (نَسَائی ص۳۸۶ حدیث۲۳۴۲)
{۳} اُمُّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا رِوایت فرماتی ہیں : ’’ انبیا کے سرتاج ، صاحبِ معراج صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک مہینے میں ہفتہ ، اتوار اور پیر کا جبکہ دوسرے ماہ منگل ، بدھ اور جُمعرات کا روزہ رکھا کرتے۔ ‘‘ (تِرْمِذِی ج۲ص۱۸۶حدیث۷۴۶)
ایامِ بیض کے روزوں کے بارے میں 5فرامین مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ