بنی کلب ‘‘ قبائلِ عرب میں سب سے زیادہ بکریاں پالتا تھا([1]) ۔ ‘‘ آہ ! کچھ بدنصیب ایسے بھی ہیں جن پر شبِ بَرَاء ت یعنی چھٹکارا پانے کی رات بھی نہ بخشے جا نے کی وَعید ہے۔حضرتِ سیِّدُنا امام بَیْہَقِی شافعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی ’’ فَضائِلُ الْاَوقات ‘‘ میں نقل کرتے ہیں : رسولِ اکرم ، نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عبرت نشان ہے: چھ آدمیوں کی اس رات(یعنی شبِ براء ت میں ) بھی بخشش نہیں ہوگی: {۱} شراب کا عادی {۲} ماں باپ کا نافرمان {۳} زِناکا عادی {۴} قطع تعلق کرنے والا {۵} تصویر بنانے والا اور {۶} چغل خور۔ (فضائل الاوقات ج۱ص۱۳۰حدیث۲۷) اِسی طرح کاہن، جا دوگر، تکبر کے ساتھ پاجا مہ یا تہبند ٹخنوں کے نیچے لٹکانے والے اور کسی مسلمان سے بلااجا زتِ شرعی بغض و کینہ رکھنے والے پر بھی اِس رات مغفرت کی سعادت سے محرومی کی وعید ہے، چنانچہ تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ مُتَذَکَّرہ (یعنی بیان کردہ) گناہوں میں سے اگر مَعَاذَ اللہ کسی گناہ میں ملوث ہوں تو وہ بالخصوص اُس گناہ سے اور بالعموم ہر گناہ سے شبِ بَرَاء ت کے آنے سے پہلے بلکہ آج اور ابھی سچی توبہ کرلیں ، اور اگربندوں کی حق تلفیاں کی ہیں توتوبہ کے ساتھ ساتھ ان کی معافی تلافی کی ترکیب بھی فرما لیں ۔
امامِ اہل سنت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا پیام تمام مسلمانوں کے نام:
میر ے آقا اعلی حضرت ، اِمامِ اَہْلِسُنّت، ولیِ نِعمت، عظیمُ الْبَرَکَت، عظیمُ الْمَرْتَبت، پروانۂِ شَمْعِ رِسالت، مُجَدِّدِ دین ومِلَّت، حامیِ سنّت ، ماحِیِ بِدعت، پیرِ طریقت، باعِثِ خَیْر وبَرَکت، حنفی مذہب کے عظیم عالِم و مفتی حضرتِ علّامہ مولانا الحاج الحافِظ القاری شاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰننے اپنے ایک اِرادتمند (یعنی معتقد) کو شبِ براء ت سے قبل توبہ اور معافی تَلافی کے تعلق سے ایک مکتوب شریف ارسال فرمایا جو کہ اُس کی اِفادِیت کے پیش نظر حاضر خدمت ہے چنانچہ ’’ کُلِّیات مکاتیب رضا ‘‘ جلد اوّل صَفْحَہ 356 تا 357 پر ہے : شبِ براء ت قریب ہے، اِس رات تمام بندوں کے اَعمال حضرتِ عزت میں پیش ہوتے ہیں ۔ مولا عَزَّوَجَلَّ بطفیل حضورِ پر نور ، شافع یومُ النشور عَلَيْهِ أَفْضَلُ الصَّلاةِ وَالتَّسْلِيْم مسلمانوں کے ذُنوب (یعنی گناہ) معاف فرماتا ہے مگر چند ، ان میں وہ دو مسلمان جو باہم دُنیوی وجہ سے رَنْجِش رکھتے ہیں ، فرماتا ہے : ’’ اِن کورہنے دو، جب تک آپس میں صلح نہ کرلیں ۔ ‘‘ لہٰذا اہلِ سنت کو چاہئے کہحتَّی الْوَسْع قبلِ غروبِ آفتاب 14 شعبان باہم ایک دوسرے سے صفائی کر لیں ، ایک دوسرے کے حقوق ادا کردیں یا معاف کرالیں کہ بِاِذْنِہٖ تَعَالٰی حُقُوقُ الْعِباد سے صحائف اَعمال (یعنی اعمال نامے) خالی ہو کر بارگاہِ عزت میں پیش ہوں ۔حقوقِ مولیٰ تعالیٰ کے لئے توبۂ صادِقہ(یعنی سچی توبہ) کافی ہے۔ (حدیثِ پاک میں ہے: ) اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَّا ذَنْبَ لَہٗ (یعنی گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اُس نے گناہ کیا ہی نہیں (ابن ماجہ حدیث۴۲۵۰) ) ایسی حالت میں بِاِذْنِہٖ تَعَالٰیضرور اِس شب میں اُمید مغفرتِ تامہ(تامْ۔مَہْ یعنی مکمَّل مغفرت کی اُمید) ہے بشرطِ صحت عقیدہ۔(یعنی عقیدہ دُرُست ہونا شرط ہے) وَہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْم۔(اور وہ گناہ مٹانے والارحمت فرمانے والا ہے) یہ سب مصالحت اِخوان (یعنی بھائیوں میں صلح کروانا) و معافیِ حقوق بِحَمْدِہٖ تعالٰی یہاں سالہائے دراز (یعنی کافی برسوں ) سے جا ری ہے، اُمیدہے کہ آپ بھی وہاں کے مسلمانوں میں اس کا اِجرا کرکے مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلامِ سُنَّۃً حَسَنَۃً فَلَہٗ اَجْرُھَا وَاَجْرُمَنْ عَمِلَ بِھَا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لَا یَنْقُصُ مِنْ اُجُوْرِ ہِمْ شَیٌٔ ([2]) (یعنی جو اسلام میں اچھی راہ نکالے اُس کیلئے اِس کا ثواب ہے اور قیامت تک جو اس پر عمل کریں ان سب کا ثواب ہمیشہ اسکے نامۂ اعمال میں لکھا جا ئے بغیر اس کے کہ اُن کے ثوابوں میں کچھ کمی آئے ) کے مِصداق ہوں اور اِس فقیر کیلئے عفو وعافیتِ دارَین کی دُعا فرمائیں ۔فقیر آپ کے لئے دُعا کرتا ہے اور کرے گا۔ سب مسلمانوں کو سمجھادیا جا ئے کہ وَہاں (یعنی بارگاہِ الٰہی میں ) نہ خالی زَبان دیکھی جا تی ہے نہ نفاق پسند ہے، صلح ومعافی سب سچّے دل سے ہو۔ وَالسَّلام۔ فقیراحمد رضا قادِری عُفِیَ عَنْہُ، از: بریلی
شامی تابعین رَحمَہُمُ اللہُ الْمُبِینشبِ براء ت کی بہت تعظیم کرتے تھے اور اس میں خوب عبادت بجا لاتے، انہی سے دیگر مسلمانوں نے اس رات کی تعظیم سیکھی ۔ بعض علماء ِ شام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام نے فرمایا: شبِ براء َت میں مسجِد کے اندر اجتماعی عبادت کرنا مستحب ہے، حضرت سیِّدانا خالد ولقمان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِما اور دیگر تابعین کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام اس رات ( کی تعظیم کیلئے) بہترین کپڑے زَیب تن فرماتے ، سرمہ اور خوشبو لگاتے ، مسجد میں (نفل) نماز یں ادا فرماتے۔
( لطائف المعارف ص ۲۶۳)
اُمُّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سیدتنا عائشہ صدیقہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہافرماتی ہیں : میں نے نبی کریم، رء وفٌ رَّحیم عَلَيْهِ أَفْضَلُ الصَّلاةِ وَالتَّسْلِيْم کو فرماتے سنا : اللہ عَزَّوَجَلَّ (خاص طور پر) چار راتوں میں بھلائیوں کے دروازے کھول دیتا ہے: {۱} بقر عید کی رات {۲} عیدالفطر کی (چاند) رات {۳} شعبان کی پندرہویں رات کہ اس رات میں مرنے والوں