فیضان رمضان

مسلمانو!ڈرجا ؤ!!حُقُوقُ الْعِباد (یعنی بندوں کے  حقوق )  کامعاملہ نہایت سخت ہے اگر کسی بندے کا مال دَبا لیا، یا اُس کو گالی دے دی ،  آنکھیں دکھا کر ڈرایا،  دھمکایا ،  ڈانٹ ڈپٹ کی جس سے اُس کا دِل دُکھا۔اَلْغَرَض کسی طرح بھی بے اجا زتِ شرعی اُس کی دِل آزاری کی یا قرضہ دبا لیا بلکہ بلا اجا زتِ قرضخواہ یا بغیرصحیح مجبوری کے  قَرض کی ادائیگی میں  تاخیر ہی کی، یہ سب بندوں کی حق تلفیاں ہیں ۔قرض کی بات چلی ہے تو یہ بھی  بتاتا چلوں کہ حُجَّۃُ الْاِسلامحضرت سیِّدُنا امام محمدبن محمدبن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالی ’’ کیمیائے سعادت ‘‘  میں  نقل کرتے ہیں :   ’’ جو شخص قرض لیتا ہے اور یہ نیت کرتا ہے کہ میں  اچھی طرح ادا کردوں گا تواللہ عَزَّوَجَلَّاس کی حفاظت کیلئے چند فرشتے مقرر فرما دیتا ہے اور وہ دعا کرتے ہیں کہ اس کا قرض ادا ہوجا ئے۔ ‘‘  (انظر: اِتحافُ السّادَۃج۶ص۴۰۹)   اور اگر قرض دار قرض ادا کرسکتا ہو تو قرض خواہ کی مرضی کے  بغیر اگر ایک گھڑی بھر بھی تاخیر کریگا تو گنہگار ہوگا اور ظالم قرار پائے گا۔ خواہ روزے کی حالت میں  ہو یا سورہا ہواور اس پر اللہ عَزَّوَجَلَّکی لعنت اترتی ہے۔یہ گناہ تو ایسا ہے کہ نیند کی حالت میں  بھی اس کے  ساتھ رہتا ہے۔ اگر اپنا سامان بیچ کر قرض ادا کرسکتا ہے تب بھی کرنا پڑ ے گا ،  اگر ایسا نہیں کرے گا تو گناہ گارہے۔ اس کا یہ فعل کبیرہ گناہوں میں  سے ہے مگر لوگ اسے معمولی خیال کرتے ہیں ۔ (کیمیائے سعادت ج۱ ص۳۳۶)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

تین پیسے کا وبال:

میرے آقا اعلٰی حضرت، اِمامِ اَہلِ سنّت،  مولانا شاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن سے قرضے کی ادائیگی میں  سُستی اور جھوٹے حیل (حِ۔یَ۔ل)  و حُجّت کرنیوالے شخص زَیدکے  بارے میں  اِستفسار ہوا تو آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ارشاد فرمایا:  ’’ زَید فاسق وفاجر ، مُرتَکِبِ کبائر ، ظالم،  کذاب،  مستحق عذاب ہے اس سے زِیادہ اور کیا اَلقاب اپنے لئے چاہتا ہے! اگراِس حالت میں  مر گیا اوردَین (قرض)  لوگوں کا اِس پر باقی رہا ، اِس کی نیکیاں اُن (قرض خواہوں ) کے  مطا لبے میں  دی جا ئیں گی اورکیونکر دی جا ئیں گی(یعنی کس طرح دی جا ئیں گی یہ بھی سن لیجئے)  تقریباََ تین پیسہ دَین (قرض)  کے  عوض(یعنی بدلے)  سات سو نمازیں باجماعت(دینی پڑیں گی)  ۔ جب اِس(قرضہ دبا لینے والے)  کے  پاس نیکیاں نہ رہیں گی اُن (قرض خواہوں )  کے  گناہ اِس(مقروض)  کے  سر پر رکھے جا ئیں گے اورآگ میں  پھینک دیا جا ئے گا ۔  ‘‘  

(فتاوٰی رضویہ ج۲۵ص۶۹ مُلخصاً)

مت دبا قرضہ کسی کا نابَکار

روئے گا دوزخ میں  ورنہ زار زار

تُوبُوااِلیَ اللہ!                                اَسْتَغْفِرُاللہ

            میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دُنیا میں  کسی پر ذرہ برابر ظلم کرنے والابھی جب تک مظلوم کو راضی نہیں کرلے گا اُس وقت تک اُس کی خلاصی (یعنی چھٹکار ا)  ناممکن ہے۔ ہاں ، اللہ عَزَّوَجَلَّاگر چاہے گا تو اپنے فضل وکرم سے قیامت کے  روز ظالم و مظلوم میں  صلح کروادے گا،  بصورتِ دِیگر اُس مظلوم کو ظالم کی نیکیاں دے دی جا ئیں گی، اگر اس سے بھی مظلوم یا مظلومین کے  حقوق ادا نہ ہوئے تو مظلومین کے  گناہ ظالم کے  سر پر ڈال دئیے جا ئیں گے اور وہ جہنم رسید کردیا جا ئے گا۔ وَالْعِیاذُ بِاللہ تعالٰی ۔

قیامت میں  مفلس کون ؟:

تاجدارِ مدینۂ منوّرہ،  سلطانِ مکّۂ مکرّمہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے اِستفسار فرمایا:   ’’ کیا تم جا نتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ ‘‘  صحابۂ کرامعَلَیْہِمُ الرِّضْوَاننے عرض کی:  یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ!ہم میں  سے مفلس تو وہ ہے جس کے  پاس دِرہم و دُنیاوی سازوسامان نہ ہو۔ تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اِرشاد فرمایا:  ’’  میری اُمت کا مفلس ترین شخص وہ ہے جو قیامت کے  دن نماز،  روزہ،  زکوٰۃ تو لے کر آئے گا مگر ساتھ ہی کسی کو گالی بھی دی ہوگی، کسی کوتہمت لگائی ہوگی،  اُس کا مالِ ناحق کھایا ہوگا، اس کا خون بہایا ہوگا، اس کو مارا ہوگا،  پس ان سب گناہوں کے  بدلے میں  اس کی نیکیاں لی جا ئیں گی،  پس اگر اس کی نیکیاں ختم ہوجا ئیں اور مزید حق دار باقی ہو ں تو بدلے میں  اُن(یعنی مظلوموں )  کے  گناہ لے کر اِس (یعنی ظالم)  پرڈالے جا ئیں گے پھر اس (ظالم)  شخص کو جہنم میں  ڈال دیا جا ئے گا۔ ‘‘

 (مسلم  ص۱۳۹۴حدیث۲۵۸۱)

ظالم سے مراد کون ہے؟:

یاد رہے!یہاں ظالم سے مراد صرف قاتِل،  ڈاکو یا مار دھاڑ کرنے والا ہی نہیں بلکہ جس نے بظاہِر کسی کی تھوڑی سی بھی حق تلفی کی مَثَلاً کسی کاایک آدھ روپیہ ہی دبا لیا ہو،  مذاق اُڑا کر یا بلا اجا زتِ شرعی ڈانٹ ڈَپٹ کر کے  یا غصے میں  گھور کر دل دُکھایا ہو وہ بھی ظالم ہے۔ اب یہ جدا بات ہے کہ جس پر اِس طرح کے  ظلم ہوئے اِس  ’’ مظلوم ‘‘  نے بھی  ’’ اُس ظالم  ‘‘  کی بعض حق تلفیاں کی ہوں ،  اِس صورت ِ حال میں  دونوں ایک دوسرے کے  حق میں  جدا جدا  مُعاملات میں   ’’ ظالم ‘‘  بھی ہیں اور  ’’ مظلوم ‘‘  بھی۔

حضرت سَیِّدُنا عبدُ اللہ اُنیس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اللہ عَزَّوَجَلَّقیامت کے  دن ارشاد فرمائے گا:   ’’ کوئی دوزخی دوزخ میں  اور کوئی جنتی جنت میں  داخل نہ

Index