انقلاب برپا ہو گیا۔انہوں نے فیشن سے منہ موڑ ا، سنّتوں سے رِشتہ جوڑا ، داڑھی مُنڈانا چھوڑا، برائیوں سے ناطہ توڑا اور بھرپور طریقے پر مَدَنی ماحول سے تعلُّق جوڑا۔ اَلغَرَضانہوں نے گناہوں سے توبہ کر لی، داڑھی رکھ لی اور عمامہ شریف کا تاج سر پر سجا لیا۔ مدنی ماحول سے وابستہ ہونے کے بعد ان کی کوشش یہ ہوتی کہ جو بھی سنّت معلوم ہو جا ئے اُس پر عمل کریں ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّان دعوتِ اسلامی کے مَدَنی کاموں کی دھومیں مچانے کیلئے تنظیمی طور پر حلقہ سطح کے ذمے دار بھی بنے۔
آئیں گی سنتیں جا ئیں گی شامتیں مَدَنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف
تم سدھر جا ؤگے، پاؤ گے برکتیں مَدَنی ماحول میں کر لو تُم اعتکاف (وسائلِ بخشش ص۶۳۹)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
مفتی دعوتِ اسلامی نے بعد وفات بھی مدنی قافلے کی دعوت دی:
مفتیِ دعوتِ اسلامیقُدِّسَ سِرُّہُ السّامیکی بھی کیا بات ہے ! مَدَنی ماحول میں رہ کر انہوں نے مَدَنی قافلوں میں خوب سفر کیا اور بے شمار اسلامی بھائیوں کی اصلاح کر کے اپنے لئے ثوابِ جا رِیہ کا ذخیرہ جمع کر کے 18محرمُ الحرام ( ۱۴۲۷ ھ ۔17.2.2006 ) کو بعد نمازِجمعہ رِحلت فرمائی اور دنیا سے جا نے کے بعد بھی خواب میں انفرادی کوشش کے ذَرِیعے ایک اسلامی بھائی کو مَدَنی قافلے کا مسافر بنادیا اور پھر مَدَنی قافلے میں پہنچ کر بھی اُس کو جلوہ دِکھایا اور بِاذنِ اللہ عَزَّوَجَلَّمثانے کے مرض سے چھٹکارا دلایا چنانچہ ایک اسلامی بھائی کو مثانے میں کچھ عرصے سے تکلیف تھی، انہوں نے خواب میں حضرتِ قبلہ مفتی دعوتِ اسلامی مولانا الحاج الحافظ محمد فاروق عطاری مَدَنی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْغَنِی کی زِیارت کی، انہوں نے انہیں مَدَنی قافِلے میں سفر کا حکم فرمایا ۔ انہوں نے سفر کی نیت کر لی مگر جُمادَی الاُولٰی (۱۴۲۷ ھ) میں سفر نہ کر سکے ۔ 24 جُمادَی الآخِرۃ (۱۴۲۷ ھ) کو انہوں نے تین روزہ مَدَنی قافِلے میں عاشِقانِ رسول کے ساتھ سنتوں بھرا سفر اختیار کیا۔ قافلے والی مسجِدمیں پہنچ کر جب لیٹے تو خواب کی دنیا میں پہنچ گئے ، کیا دیکھتے ہیں کہ مفتی دعوتِ اسلامی قُدِّسَ سِرُّہُ السّامی پردے میں پردہ کئے( یعنی گود میں چادر پھیلا کر رانیں وغیرہ چھپائے) تشریف فرما ہیں اور اپنے ملفوظات سے نواز رہے ہیں ، مگروہ ان کے ارشادات سمجھ نہ پائے۔ مَدَنی قافِلے میں سفر کی برکت سے اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّانہیں مثانے کی تکلیف سے نجا ت مل چکی ہے۔
درد گرچِہ تمہارے مَثانے میں ہے درس فاروق دیں قافلے میں چلو
فائدہ آخرت کے بنانے میں ہے سب مُبلِّغ کہیں قافِلے میں چلو (وسائل بخشش ص۶۷۷)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کے اُنیس حروف کی
نسبت سےمسجد کے متعلق 19 مَدَنی پھول
{۱} مروی ہوا کہ ایک مسجِد اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّکے حضور شکایت کرنے چلی کہ لوگ مجھ میں دنیا کی باتیں کرتے ہیں ۔ ملائکہ اُسے آتے ہوئے ملے اور بولے: ہم ان ( مسجِد میں دنیا کی باتیں کرنے والوں ) کے ہلاک کرنے کو بھیجے گئے ہیں ۔ ( فتاوٰی رضویہ ج۱۶ ص۳۱۲)
{۲} روایت کیا گیا ہے کہ ’’ جو لوگ غیبت کرتے اور جو لوگ مسجِد میں دنیا کی باتیں کرتے ہیں ان کے منہ سے گندی بدبو نکلتی ہے جس سے فرشتے اللہ عَزَّوَجَلَّکے حضور ان کی شکایت کرتے ہیں ۔ ‘‘ سُبحٰنَ اللہ!جب مباح و جا ئز بات بلا ضرورتِ شرعیہ کرنے کو مسجد میں بیٹھنے پر یہ آفتیں ہیں تو(مسجِد میں ) حرام و ناجا ئز کام کرنے کا کیا حال ہو گا!
( ایضاً )
{۳} درزی کواجا زت نہیں کہ مسجِد میں بیٹھ کر کپڑے سئیے، ہاں بچوں کو روکنے اورمسجِدکی حفاظت کیلئے بیٹھا توحرج نہیں ۔اسی طرح کاتب (یعنی لکھنے والے) کو ( مسجِد میں ) اُجرت پرکتابت کرنے (یعنی لکھنے) کی اجا زت نہیں ۔ (عالمگیری ج۱ص۱۱۰)
{۴} مسجِدکے اندر کسی قسم کاکوڑا(یعنی کچرا) ہرگزنہ پھینکیں ۔سیِّدُناشیخ عبدُالحق محدث دِہلوی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْقَوِی ’’ جذب القلوب ‘‘ میں نقل کرتے ہیں کہ مسجدمیں اگر خس(یعنی معمولی سا تنکا یا ذَرّہ) بھی پھینکاجا ئے تواس سے مسجِدکو اس قدر تکلیف پہنچتی ہے جس قَدَر تکلیف انسان کواپنی آنکھ میں خس (معمولی ذَرّہ) پڑجا نے سے ہوتی ہے۔ (جذبُ الْقُلُوب ص۲۲۲)
{۵} مسجد کی دیوار، اِس کے فرش، چٹا ئی یادَری کے اوپریااس کے نیچے تھوکنا ، ناک سنکنا، ناک یاکان میں سے میل نکال کرلگانا، مسجدکی دری یا چٹائی سے دھاگایا تنکا وغیرہ نوچناسب شرعاًممنوع ہے۔