فیضان رمضان

            میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آیتِ مبارَکہ میں  قمری(یعنی ہجری سن کے 12)  مہینوں کا ذِکر ہے جن کا حساب چاند سے ہوتا ہے ،  بہت سے اَحکامِ شرع کی بنا(یعنی بنیاد)  بھی قمری مہینوں پر ہے، مَثَلاً رَمَضانُ الْمُبارَک کے  روزے،  زَکوٰۃ،  مَناسک حج شریف وغیرہ۔ نیز اسلامی تہوار مَثَلاً عید میلادُ النبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،  عید الفطر ،  عیدُ الْاَضْحٰی،  شبِ معراج، شبِ بر ا ئَ ت ، گیارہویں شریف، اَعراسِ بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن وغیرہ بھی قمری مہینوں کے  حساب سے منائے جا تے ہیں ۔ افسوس! آجکل مسلمان جہاں بے شمار سنتوں سے دُور جا پڑا ہے وَہاں اسلامی تاریخوں سے بھی ناآشنا

 

 ہوتا جا رہا ہے ۔غالِباً ایک لاکھ مسلمانوں کے  اجتماع میں  اگر یہ سُوال کیا جا ئے کہ  ’’ بتاؤ آج کس ہجری سن کے  کون سے مہینے کی کتنی تاریخ ہے ؟ ‘‘ تو شاید بمشکل سو مسلمان ایسے ہوں گے جو صحیح جواب دے سکیں ! یادرہے کہ بہت سے معاملات جیسے زکوٰۃکی فرضیت وغیرہ میں  قمری مہینوں کا لحاظ رکھنا فرض ہے۔

رجب کے  احترام کی برکت کی حکایت:

حضرتِ سَیِّدُنا عیسٰی رُوحُ اللہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے  دَور کا واقعہ ہے کہ ایک شخص کسی عورت پر عاشق تھا۔ایک بار اُس نے اپنی معشوقہ پر قابو پالیا، لوگوں کا مجمع دیکھ کر اُس نے اندازہ لگایا کہ وہ چاند دیکھ رہے ہیں ، اُس نے اُس عورت سے پوچھا: لوگ کس ماہ کا چاند دیکھ رہے ہیں ؟ جواب دیا:  ’’  رجب کا۔ ‘‘ یہ شخص حالانکہ غیر مسلم تھا مگر رجب شریف کا نام سنتے ہی تعظیماً فوراً الگ ہوگیا اور ’’  گندے کام ‘‘  سے بازرہا۔حضرتِ سَیِّدُنا عیسٰی رُوحُ اللہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کوحکم ہوا :   ’’ ہما ر ے فلاں بندے سے ملاقات کرو۔ ‘‘ آپ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام تشریف لے گئے اوراللہ عَزَّوَجَلَّکا حکم اور اپنی تشریف آوَری کا سبب ارشاد فرمایا۔یہ سنتے ہی اُس کا دل نورِ ایمان سے جگمگا اٹھا اور اُس نے فوراً اسلام قبول کرلیا۔           (انیسُ الواعِظین ص۱۷۷)

          میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دیکھی آپ نے رجب کی بہاریں ! رجَبُ المُرَجَّب کی تعظیم کرنے سے جب ایک غیر مسلم کو ایمان کی دولت نصیب ہوسکتی ہے تو جو مسلمان  رجَبُ الْمُرَجَّب کا احترام کرے اُس کو نہ جا نے کیا کیا اِنعامات ملیں گے!قراٰنِ پاک میں  حرمت(یعنی عزت )  والے مہینوں میں  اپنی جا نوں پر ظلم کرنے سے روکا گیا ہے چنانچہ ’’ نور العرفان ‘‘  میں  فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ (ترجَمَۂ کنزُا لایمان:  تو ان مہینوں میں  اپنی جا ن پر ظلم نہ کرو)  کے  تحت ہے:  ’’ یعنی خصوصیَّت سے ان چار مہینوں میں  گناہ نہ کرو۔ ‘‘  (نورُالعرفان ص۳۰۶)

اللہ کا مہینا:

فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ: رَجَبٌ شَہْرُ اللہ تَعَالٰی وَشَعْبَانُ شَہْرِیْ وَرَمَضَانُ شَہْرُ اُمَّتِیْ ۔ یعنی رَجب اللہ تَعَالٰی کا مہینا اور شعبان میرا مہینا اوررَمضان میری اُمت کا مہینا ہے۔ (اَلْفِردَوس بمأثور الْخِطاب ج۲ص۲۷۵ حدیث ۳۲۷۶)

رجب میں  پریشانی دور کرنے کی فضیلت:

حضرتسیِّدُنا عبد اللہ ابنِ زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے : جو ماہِ رجب میں  کسی مسلمان کی پریشانی دورکرے تواللہ عَزَّوَجَلَّاُس کو جنت میں  ایک ایسا محل عطا فرمائے گا جو حد نظر تک وسیع ہوگا۔تم رجبکا اکرام (واحترام)  کرو اللہ تَعَالٰی تمہار ا ہزار کر امتوں کے  ساتھ اِکرام فرمائے گا۔

                                                                        (غُنیۃُ الطّالِبین ج۱ ص۳۲۴، معجمُ السّفر لِلسّلفی ص۴۱۹رقم۱۴۲۱)  

دو سال کی عبادت کا ثواب:

حضرت سَیِّدُنا اَنس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے ،  سرکارِ نامدار،  دوعالم کے  مالک ومختار بِاِذنِ پروَردَگار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ مشکبار ہے:    ’’ جس نے ماہِ حرام میں  تین دن جُمعرات،  جُمُعہ اور ہفتہ (یعنی سنیچر) کے  روزے رکھے ،  اس کے  لئے دو سال کی عبادت کا ثواب لکھا جا ئے گا۔ ‘‘  

(مُعْجَم اَ وْسَط  ج۱ص۴۸۵حدیث۱۷۸۹)

            میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یہاں  ’’ ماہِ حرام ‘‘  سے یہی چار ماہ یعنی ذُوالْقَعدہ ،  ذُوالْحِجّہ ،  مُحرّمُ الْحرام اور رَجَبُ الْمُرَجَّب مُرادہیں ، ا ن چاروں مہینوں میں  سے جس ماہ میں  بھی بیان کردہ تین دنوں کا روزہ رکھیں گے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ دوسال کی عبادت کاثواب پائیں گے ۔

تیرے کرم سے اے کریم !مجھے کون سی شے ملی نہیں

جھولی ہی میری تنگ ہے، تیرے یہاں کمی نہیں

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

رجب کے  مختلف نام اور معانی:

 ’’ رجب  ‘‘ دراصل  ’’ تَرجِیْب ‘‘  سے مُشْتَق (یعنی نکلا )   ہے اِس کے  معنٰی ہیں :   ’’ تعظیم کرنا۔ ‘‘  اِس کو اَلْاَصَبْ (یعنی تیز بہاؤ)  بھی کہتے ہیں اِس لئے کہ اس

Index