میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! رَمضان کا روزہ بلا اجا زتِ شرعی توڑ دینا بہت بڑا گناہ ہے۔وَقت سے پہلے اِفطار کرنے سے مراد یہ ہے کہ روزہ تو رکھ لیا مگر سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے جا ن بوجھ کر کسی صحیح مجبوری کے بغیر توڑ ڈالا ۔اس حدیثِ پاک میں جو عذاب بیان کیا گیا ہے وہ روزہ رکھ کر توڑ دینے والے کیلئے ہے اور جو بِلا عذرِ شرعی روزۂ رَمضان ترک کر دیتا ہے وہ بھی سخت گنہگار اورعذابِ نار کا حقدار ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّاپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے طفیل ہمیں اپنے قہرو غضب سے بچائے۔ اٰمِیْن بِجا ہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
حضرتسَیِّدُنا جا بر بن عبد اللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہُما سے مروی ہے ، تاجدارِ مدینۂ منوّرہ، سلطانِ مکۂ مکرمہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ باقرینہ ہے: ’’ جس نے ماہِ رَمضان کو پایا اورا س کے روزے نہ رکھے وہ شخص شقی (یعنی بد بخت) ہے، جس نے اپنے والدین یا کسی ایک کو پایا اور ان کے ساتھ اچھا سلوک نہ کیا وہ بھی شقی (یعنی بدبخت ) ہے اور جس کے پاس میرا ذِکر ہوا اور اُس نے مجھ پر دُرُود نہ پڑھا وہ بھی شقی (یعنی بد بخت) ہے۔ ‘‘ (مُعجَم اَوسَط ج۲ص۶۲حدیث۳۸۷۱)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حضرت سَیِّدُنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہ سے مروی ہے ، رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا: ’’ اُس شخص کی ناک مٹی میں مل جا ئے کہ جس کے پاس میرا ذِکر کیاگیا تو اُس نے میرے اوپر دُرُود نہیں پڑھااوراُس شخص کی ناک مٹی میں مل جا ئے جس پر رَمضان کا مہینا داخل ہوا پھر اُس کی مغفرت ہونےسے قبل گزر گیا اور اس آدمی کی ناک مٹی میں مل جا ئے کہ جس کے پاس اس کے والدین نے بڑھاپے کو پالیا اور اس کے والدین نے اس کو جنت میں داخل نہیں کیا۔ ‘‘ (یعنی بوڑھے ماں باپ کی خدمت کرکے جنت حاصل نہ کر سکا)
(مسنداحمد ج۳ص۶۱حدیث۷۴۵۵)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! روزے کی اگرچہ ظاہری شرط یہی ہے کہ روزہ دار قصداً کھانے پینے اورجماع سے باز رہے ۔تاہم روزے کے کچھ باطنی آداب بھی ہیں جن کا جا ننا ضروری ہے تاکہ حقیقی معنوں میں ہم روزہ کی برکتیں حاصِل کرسکیں ۔ چنانچہ روزے کے تین دَرَجے ہیں :
(۱) عوام کا روزہ (۲) خَواص کا روزہ (۳) اَخَصُّ الْخَواص کا روزہ
(۱) عوام کا روزہ:
روزے کے لغوی معنٰی ہیں : ’’ رُکنا ‘‘ لہٰذا شریعت کی اِصطلاح میں صبح صادِق سے لے کر غروب آفتاب تک قصداً کھانے پینے اور جماع سے ’’ رُکے رہنے ‘‘ کو روزہ کہتے ہیں اور یہی عوام یعنی عام لوگوں کا روزہ ہے۔
کھانے پینے اور جماع سے رُکے رہنے کے ساتھ ساتھ جسم کے تمام اَعضا کو برائیوں سے ’’ روکنا ‘‘ خَوَاص یعنی خاص لوگوں کا روزہ ہے۔
(۳) اَخَصُّ الْخَواص کا روزہ:
اپنے آپ کو تمام تر اُمور سے ’’ روک ‘‘ کر صرف اور صرف اللہ عَزَّوَجَلَّکی طرف مُتَوَجِّہ ہونا، یہ اَخَصُّ الْخوَاص یعنی خاص الخاص لوگوں کا روزہ ہے۔
(بہار شریعت ج۱ص۹۶۶ مُلَخَّصاً)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ضرورت اِس اَمرکی ہے کہ کھانے پینے وغیرہ سے ’’ رُکے رہنے ‘‘ کے ساتھ ساتھ اپنے تمام تر اَعضائے بدن کو بھی روزے کا پابند بنایا جا ئے۔
داتا صاحب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا اِرشاد:
حضرت سَیِّدُنا داتا گنج بخش علی ہجویری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْقَوِی فرماتے ہیں : ’’ روزے کی حقیقت رُکنا ‘‘ ہے اور رُکے رہنے کی بہت سی شرائط ہیں مَثَلاً معدے کو کھانے پینے سے رَوکے رکھنا، آنکھ کو بد نگاہی سے روکے رکھنا، کان کو غیبت سننے، زَبان کو فضول اور فتنہ انگیز باتیں کرنے اور جسم کو حکم الٰہی عَزَّوَجَلَّکی مخالفت سے روکے رکھناروزہ ہے۔ جب بندہ اِن تمام شرائط کی پیروی کرے گاتب وہ حقیقتاً روزہ دار ہوگا۔ ‘‘ (کَشْفُ الْمَحْجُوب ص۳۵۴، ۳۵۳)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
روزہ رکھ کر بھی گناہ توبہ! توبہ!: