اسلام کی حفاظت کرے۔(مُعجَم کبیر ج۱۱ ص ۲۸۵ حدیث ۱۲۰۱۲)
{۳} سحری پوری کی پوری بَرَکت ہے پس تم نہ چھوڑو چاہے یِہی ہو کہ تم پانی کا ایک گھونٹ پی لو۔ بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے فرشتے رَحمت بھیجتے ہیں سحری کرنے والوں پر ۔ (مُسند امام احمد ج۴ ص۸۸ حدیث۱۱۳۹۶)
سحری روزے کیلئے شرط نہیں ، سحری کے بِغیر بھی روزہ ہوسکتا ہے مگر جا ن بوجھ کر سحری نہ کرنا مناسب نہیں کہ ایک عظیم سنت سے محرومی ہے او رسحری میں خوب ڈٹ کر کھانا ہی ضَروری نہیں ، چند کَھجوریں اور پانی ہی اگر بہ نیت سحری استعمال کر لیں جب بھی کافی ہے ۔
حضرت سَیِّدُنا اَنس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہ فرماتے ہیں کہ تاجدارِ مدینہ، سرورِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سحری کے وَقت مجھ سے فرمایا: ’’ میرا روزہ رکھنے کا ارادہ ہے مجھے کچھ کھلاؤ۔ ‘‘ تو میں نے کچھ کَھجُوریں اور ایک برتن میں پانی پیش کیا۔ ‘‘ (السُّنَنُ الکُبریٰ لِلنَّسائی ج۲ص۸۰حدیث۲۴۷۷)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ روزہ دار کیلئے ایک تو سحری کرنا بذاتِ خود سُنَّت اور کھجور سے سحری کرنا دوسری سُنَّت، کیوں کہ اللہ تَعَالٰی کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کھجور سے سحری کرنے کی ترغیب دی ہے۔چنانچِہ سَیِّدُنا سائب بن یزید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہ سے مر وی ہے، اللہ کے پیارے حبیب ، حبیب لبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’ نِعْمَ السَّحُوْرُ التَّمْرُ۔ یعنی کھجور بہترین سحری ہے۔ ‘‘ (مُعجَم کبیر ج۷ ص۱۵۹حدیث ۶۶۸۹)
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: ’’ نِعْمَ سَحُوْرُالْمُؤْمِنِ التَّمْرُ۔یعنی کھجور مومن کی کیا ہی اچّھی سحری ہے۔ ‘‘ ( ابوداوٗد ج ۲ ص۴۴۳حدیث۲۳۴۵)
حنفیوں کے بہت بڑے عالم حضرتِ علامہ مولانا علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ البَارِیفرماتے ہیں : ’’ بعضوں کے نزدیک سحری کا وَقت آدھی رات سے شروع ہوجا تا ہے۔ ‘‘ (مِرقاۃُالمفاتیح ج۴ ص۴۷۷)
سحری میں تاخیر اَفضل ہے جیسا کہ حضرتِ سَیِّدُنا یعلی بن مرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہ سے رِوایت ہے کہ پیارے سرکار ، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’ تین چیزوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ محبوب رکھتا ہے(ا) اِفطار میں جلدی اور (۲) سحری میں تاخیر اور (۳) نماز (کے قیام ) میں ہاتھ پر ہاتھ رکھنا۔ ‘‘
(مُعجَم اَوسَط ج۵ ص ۳۲۰ حدیث۷۴۷۰)
سحر ی میں تاخیر سے کون سا وقت مراد ہے؟
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! سحری میں تاخِیر کرنا مُسْتَحَب ہے مگر اتنی تاخیر بھی نہ کی جا ئے کہ صبحِ صادق کا شبہ ہونے لگے!یہاں ذِہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’ تاخیر ‘‘ سے مراد کون سا وَقت ہے ؟ مُفَسّرِشہیرحکیمُ الْاُمَّت حضرتِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان ’’ تفسیرنعیمی ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’ اِس سے مراد رات کا چھٹا حصہ ہے ۔ ‘‘ پھر سوال ذِہن میں اُبھرا کہ رات کا چھٹا حصہ کیسے معلوم کیا جا ئے ؟اِس کا جواب یہ ہے کہ غروبِ آفتاب سے لے کر صبح صادِق تک رات کہلاتی ہے ۔ مَثَلاً کسی دِن سات بجے شام کو سورج غروب ہوا اورپھر چار بجے صبح صادِق ہوئی۔اِس طرح غروبِ آفتاب سے لے کر صبحِ صادِق تک جو نو گھنٹے کا وَقفہ گزرا وہ رات کہلایا۔اب رات کے اِ ن نو گھنٹوں کے برابر برابر چھ حصے کر دیجئے ۔ہر حصہ ڈیڑھ گھنٹے کا ہوا ، اب رات کے آخر ی ڈیڑھ گھنٹے (یعنی اڑھائی بجے تا چار بجے ) کے دوران صبحِ صادِق سے پہلے پہلے سحری کرنا تاخیر سے کرنا ہوا۔ سحری واِفطَار کا وَقت روزانہ بدلتا رہتا ہے۔ بیان کئے ہوئے طریقے کے مطابق جب چاہیں رات کا چھٹا حصہ نکال سکتے ہیں ۔اگر رات سحری کر لی اور روزے کی نیت بھی کرلی ۔تب بھی بقیہ رات کے دوران کھاپی سکتے ہیں ، نئی نیت کی حاجت نہیں ۔
اَذانِ فجر نماز کے لیے ہے نہ کہ روزہ بند کرنے کے لیے!:
بعض لوگ صبح صادِق کے بعد فجر کی اذان کے دوران کھاتے پیتے رہتے ہیں ، اور بعض کان لگا کر سنتے ہیں کہ ابھی فلاں مسجِد کی اذان ختم نہیں ہوئی یا کہتے ہیں : وہ سنو! دُور سے اذان کی آواز آرہی ہے! اور یوں کچھ نہ کچھ کھا لیتے ہیں ۔ اگر کھاتے نہیں تو پانی پی کر اپنی اِصطلاح میں ’’ روزہ بند ‘‘ کرتے ہیں ۔ آہ ! اِس طرح ’’ روزہ بند‘ ‘ تو کیاکریں گے روزے کو بالکل ہی ’’ کھلا ‘‘ چھوڑ دیتے ہیں اور یوں صبح صادق کے بعد کھایا پی لینے کے سبب ان کا روزہ ہوتا ہی نہیں ، اور سارادن بھوک پیاس کے سوا کچھ ان کے ہاتھ آتا ہی نہیں ۔ ’’ روزہ بند ‘‘ کرنے کا تعلق اَذانِ فجر سے نہیں صبح صادِق سے پہلے پہلے کھانا پینا بند کرنا ضروری ہے، جیسا کہ آیت مقدسہ کے تحت