کے نام اور لوگوں کا رِزق اور (اِس سال) حج کرنے والوں کے نام لکھے جا تے ہیں {۴} عرفے کی (یعنی 8اور9 ذُوالحجّہ کی درمیانی) رات اذانِ (فجر) تک۔ (تفسیردُرِّمَنثورج۷ص۴۰۲)
دولہا کا نام مُردوں کی فہرس میں !:
سرکار مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عبرت نشان ہے : ’’ (لوگوں کی) زندگیاں ایک شعبان سے دوسرے شعبان میں مُنْقَطِع ہوتی ہیں حتی کہ ایک آدمی نکاح کرتا ہے اور اس کی اولاد ہوتی ہے حالانکہ اس کا نام مردوں میں لکھا ہوتا ہے۔ ‘‘ (کَنْزُ الْعُمّال ج۱۵ص۲۹۲حدیث۴۲۷۷۳)
تو خوشی کے پھول لے گا کب تلک!
تو یہاں زندہ رہے گا کب تلک! (وسائلِ بخشش ص ۷۰۹)
مکان بنانے والا مردوں کی فہرس میں :
حضرت سیِّدُناامام ابنِ ابی الدنیا رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ حضرتِ سیّدُنا عطا بن یسار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّارسے روایت کرتے ہیں کہ جب نصف شعبان کی رات (یعنی شبِ بَرَاء ت) آتی ہے تو ملک الموت عَلَیْہِ السَّلَام کو ایک صَحِیفَہ (صَ۔ حِیْ۔ فَہ یعنی رِسالہ) دیا جا تا اور کہا جا تا ہے : یہ صَحِیفَہ پکڑ لو ، ایک بندہ بستر پر لیٹا ہوگا اور عورَتوں سے نکاح کرے گا اور گھر بنائے گا جبکہ اس کا نام مردوں میں لکھا جا چکا ہوگا ۔ (تفسیرِ دُرِّمنثورج۷ص۴۰۲)
حضرتسیِّدُنا ابنِ عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ’’ ایک آدمی لوگوں کے درمیان چل رہا ہوتا ہے حالانکہ وہ مردوں میں اُٹھایا ہوا ہوتا ہے ۔ ‘‘ پھر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے پارہ 25 سُوْرَۃُ الدُّخَان کی آیت نمبر 3 اور 4 تلاوت کی :
اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِیْنَ(۳) فِیْهَا یُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِیْمٍۙ(۴)
ترجَمۂ کنزالایمان : بے شک ہم نے اسے بَرَکت والی رات میں اُتارا، بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں ۔ اس میں بانٹ دیا جا تا ہے ہر حکمت والا کام۔
پھر فرمایا : اس رات میں ایک سال سے دوسرے سال تک دنیا کے مُعامَلات کی تقسیم کی جا تی ہے ۔ (تفسیرِطَبَری ج۱۱ص۲۲۳)
مُفَسِّرِشہیر ، حکیمُ الْاُمَّت، حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّانمذکورہ آیاتِ مبارَکہ کے تحت فرماتے ہیں : ’’ اِس رات سے مراد یا شبِ قَدر ہے ستائیسو۲۷یں رات یا شبِ بَراءَت پندرھو۱۵یں شعبان، اس رات میں پورا قراٰن لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیاکی طرف اُتارا گیا پھر وہاں سے تیئس۲۳ سال کے عرصے میں تھوڑا تھوڑا حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اُترا۔اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس رات میں قراٰن اُترا وہ مبارَک ہے، تو جس رات میں صاحبِ قراٰنصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دنیا میں تشریف لائے وہ بھی مبارَک ہے۔ اس رات میں سال بھر کے رِزق، موت، زندگی، عزت و ذلت، غرض تمام انتِظامی اُمور لوحِ محفوظ سے فرشتوں کے صَحِیفوں میں نقل کر کے ہر صَحِیفَہ (یعنی رسالہ ) اس محکمے کے فرشتوں کو دے دیا جا تا ہے جیسے ملک الموت عَلَیْہِ السَّلَام کو تمام مرنے والوں کی فہرست وغیرہ۔ ‘‘ (نورُالعِرفان ص۷۹۰)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!پندرہ شَعْبانُ الْمُعَظّم کی رات کتنی نازُک ہے! نہ جا نے کس کی قِسْمت میں کیا لکھ دیا جا ئے! بعض اوقات بندہ غفلت میں پڑا رَہ جا تا ہے اور اُس کے بارے میں کچھ کا کچھ طے ہوچکا ہوتا ہے ۔ ’’ غُنْیَۃُ الطّالِبِین ‘‘ میں ہے: ’’ بہت سے کفن دُھل کر تیار رکھے ہوتے ہیں مگرکفن پہننے والے بازاروں میں گھوم پھر رہے ہوتے ہیں ، کافی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کی قبریں کھودی جا چکی ہوتی ہیں مگر اُن میں دَفن ہونے والے خوشیوں میں مست ہوتے ہیں ، بعض لوگ ہنس رہے ہوتے ہیں حالانکہ اُن کی موت کا وَقت قریب آچکا ہوتا ہے۔کئی مکانات کی تعمیر ات کا کام پورا ہو گیا ہوتا ہے مگر ساتھ ہی ان کے مالکان کی زندگی کا وَقت بھی پورا ہوچکا ہوتا ہے۔ ‘‘ (غُنْیَۃُ الطّا لِبین ج۱ص۳۴۸ )
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
شبِ بَرَاءَ ت میں نامۂ اعمال تبدیل ہوتے ہیں لہٰذا ممکن ہو تو 14 شَعبانُ الْمُعَظَّم کوبھی روزہ رکھ لیا جا ئے تاکہ اَعمال نامے کے آخری دن میں بھی روزہ ہو۔14 شعبان کوعصر کی نمازباجماعت پڑھ کر وَہیں نفل اعتکاف کر لیا جا ئے اور نمازِ مغرب کے انتظار کی نیّت سے مسجِد ہی میں ٹھہرا جا ئے تاکہ اعمال نامہ تبدیل ہو نے کے آخر ی لمحات میں مسجِد کی حاضری، اعتکاف اور انتظارِ نماز وغیرہ کا ثواب لکھا جا ئے ۔ بلکہ زہے نصیب! ساری ہی رات عبادت