فیضان رمضان

سے رائے لے ۔

روزہ اور حیض و نفاس

 {۱۲} روزے کی حالت میں  حیض یا نفاس شروع ہو گیا تو وہ روزہ جا تا رہااس کی قضا رکھے،  فرض تھا تو قضا فرض ہے اور نفل تھا تو قضا واجب۔  حیض و نفاس کی حالت میں  سجدۂ شکر و سجدۂ تلاوت حرام ہے اور آیت سجدہ سننے سے اس پر سجدہ واجب نہیں ۔ (بہارشریعت ج۱ص۳۸۲)  {۱۳}  حیض یا نفاس کی حالت میں  نماز،  روزہ حرام ہے اور ایسی حالت میں  نَماز و روزہ صحیح ہوتے ہی نہیں ۔ نیز تلاوت قراٰنِ پاک یا قراٰنِ پاک کی آیاتِ مقدَّسہ یا اُن کا ترجمہ چھونا یہ سب بھی حرام ہے۔ (ایضاًص۳۷۹، ۳۸۰)  {۱۴}  حیض یانفاس والی کے  لئے اِختیار ہے کہ چھپ کر کھائے یا ظاہراً ، روزہ دار کی طرح رہنا اُس پر ضَروری نہیں ۔  ( جوہرہ ج۱ص۱۸۶)   {۱۵}   مگر چھپ کرکھانا بہتر ہے خصوصاً حیض والی کے  لئے ۔ (بہارشریعت ج۱ص۱۰۰۴)  {۱۶} حمل والی یا دُودھ پلانے والی عورت کو اگر اپنی یا بچے کی جا ن جا نے کا صحیح اَندیشہ ہے تو اجا زت ہے کہ اِ س وقت روزہ نہ رکھے، خواہ دُودھ پلانے والی بچے کی ماں ہو یا دائی،  اگر چہ رَمَضانُ الْمُبارَک میں  دُودھ پلانے کی نوکری اِختیار کی ہو۔    (دُرِّمُختار،  ردُّ الْمُحتار ج۳ص۴۶۳)

عمر رسیدہ بُزُرگ کے  روزے

 {۱۷}   ’’ شیخِ فانی  ‘‘ یعنی وہ معمربزرگ جن کی عمرایسی ہو گئی کہ اب وہ روزبروز کمزور ہی ہوتے جا ئیں گے،  جب وہ روزہ رکھنے سے عاجز(یعنی مجبور وبے بس)  ہوجا ئیں یعنی نہ اب رکھ سکتے ہیں نہ آیِندہ روزے کی طاقت آنے کی اُمید ہے اُنہیں اب روزہ نہ رکھنے کی اِجا زت ہے ، لہٰذا ہر روزے کے  بدلے میں   ’’  فدیہ ‘‘  یعنی دونوں وقت ایک مسکین کو بھر پیٹ کھانا کھلا نا اُس پر واجب ہے یا ہر روزے کے  بدلے ایک صَدَقۂ فِطْرکی مقدار مسکین کو د ے دیں ۔(دُرِّمُختار ج ۳ ص ۴۷۱)  (صدقۂ فطر کی ایک مقدار 2کلو میں  80گرام کم  گیہوں یا اُس کا آٹا یا اُن گیہوں کی رقم ہے)  

 {۱۸} اگر ایسا بوڑھا گرمیوں میں  روزے نہیں رکھ سکتا تو نہ رکھے مگر اِس کے  بدلے سردیوں میں  رکھنا فرض ہے۔ (ردُّالْمُحتار ج۳ص۴۷۲)

 {۱۹}  اگر فدیہ دینے کے  بعد روزہ رکھنے کی طاقت آگئی تو دیا ہوا فدیہ صَدَقۂ نفل ہو گیا۔اُن روزوں کی  قضا رکھیں ۔(عالمگیری ج۱ص۲۰۷)

 {۲۰}   یہ  اِختیار ہے کہ شروعِ رَمضان ہی میں  پورے رَمضان (کے  تمام روزوں ) کا ایک دَم فدیہ دے دیں یا آخِر میں  (سب اِکٹّھے دے) دیں ۔ (دُرِّمُختار ج۳ص۴۷۲)

 {۲۱} فدیہ دینے میں  یہ ضروری نہیں کہ جتنے فدیے ہوں اُتنے ہی مَساکین کو الگ الگ دیں ، بلکہ ایک ہی مسکین کو کئی دِن کے (ایک ساتھ)  بھی دیئے جا سکتے ہیں ۔    

(اَیضاً)

نَفْل روزہ توڑنے میں  صِرف قضا ہوتی ہے کفّارہ نہیں

 {۲۲}  نفل روزہ قصداً شروع کرنے والے پر اب پورا کرنا واجب ہوجا تا ہے کہ توڑ دیا تو قضا واجب ہوگی۔(ردُّ الْمُحتار ج ۳ ص ۴۷۳)

 {۲۳}  اگر آپ نے یہ گمان کرکے  روزہ رکھا کہ میرے ذِمے کوئی روزہ ہے مگر روزہ شروع کرنے کے  بعد معلوم ہوا کہ مجھ پر کسی قسم کاکوئی روزہ نہیں ہے،  اب اگر فوراً توڑ دیا توکچھ نہیں اور یہ معلوم کرنے کے  بعد اگر فوراًنہ توڑا،  تو اب نہیں توڑسکتے ، اگر توڑیں گے تو قضا واجب ہوگی۔ (دُرِّمُختار ج۳ص۴۷۳)

 {۲۴} نفل روزہ قصداً (یعنی جا ن بوجھ کر) نہیں توڑا بلکہ بلا اِختیار ٹوٹ گیا، مَثَلاً دَورانِ روزہ عورت کوحیض آگیا،  جب بھی قضا واجب ہے۔  (اَیضاًص۴۷۴)

سال میں  پانچ روزے حرام ہیں

 {۲۵}   عید الفطر یا بقرعید کے  چار دِن یعنی10، 11، 12، 13ذُوالحِجّۃِ الْحرام میں  سے کسی بھی دِن کا روزئہ نفل رکھا تو (چونکہ اِن پانچ دِنوں میں  روزہ رکھنا حرام ہے لہٰذا )  اِس روزے کا پورا کرنا واجب نہیں ، نہ اِس کے  توڑنے پر قضا واجب، بلکہ اِس کا توڑدینا ہی واجب ہے اور اگر اِن دِنوں میں  روزہ رکھنے کی منت مانی تو منت پوری کرنی واجب ہے مگر اِن دِنوں میں  نہیں بلکہ اور دِنوں میں  ۔    (ردُّ الْمُحتارج۳ص۴۷۴)

 {۲۶}  نفل روزہ بلاعذر توڑ دینا ناجا ئز ہے،  مہمان کے  ساتھ اگر میزبان نہ کھائے گا تو اُسے ناگوار ہوگا یا مہمان اگر کھانا نہ کھائے گا تو میزبان کو اَذِیت ہوگی تو نفل روزہ توڑدینے کیلئے یہ عذر ہے،  بشرطیکہ یہ بھروساہو کہ اِس کی قضا رکھ لے گا اور ضَحْوَۂ کُبریٰ سے پہلے توڑدے بعد کو نہیں ۔ (بہار شریعت ج۱ص۱۰۰۷ ، عالمگیری ج۱ص۲۰۸)  

دعوت کے  سبب روزہ توڑنا

 {۲۷}  دعوت کے  سبب ضَحْوَۂ کُبریٰسے پہلے(نفل)  روزہ توڑ سکتا ہے جبکہ دعوت کرنے والا محض(یعنی صرف)  اس کی موجودَگی پر راضی نہ ہو اور اس کے  نہ کھانے کے  سبب ناراض ہو بشرطیکہ یہ بھروسا ہوکہ بعد میں  رکھ لے گا، لہٰذا اب روزہ توڑ لے اور اُس کی قضا رکھے ۔لیکن اگر دعوت کرنے والامحض(یعنی صرف)  اس کی موجودَگی پر راضی ہو جا ئے اور نہ کھانے پر ناراض نہ ہو تو روزہ توڑنے کی اجا زت نہیں ۔ (عالمگیری ج۱ص۲۰۸)

 

Index