فیضان رمضان

مکاتب([1])  نے حضرت مولائے کائنات،  علیُّ المُرتَضٰی شیر خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکی بارگاہ میں  عرض کی:   ’’ میں  اپنی کتابت(یعنی آزادی کی قیمت)  ادا کرنے سے عاجِز ہوں میری مدد فرمائیے۔ ‘‘  آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکی نے فرمایا:  میں  تمہیں چند کلمات نہ سکھاؤں جورَسُولَ اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے مجھے سکھائے ہیں ،  اگر تم پر جبل صِیر([2]) جتنا دَین (یعنی قرض)  ہوگا تو اللہ تَعَالٰی تمہاری طرف سے ادا کردے گا ، تم یوں کہا کرو:  اَللّٰھُمَّ اکْفِنِیْ بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَاَغْنِنِیْ بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ (ترجمہ :  یااللہ عَزَّوَجَلَّ! مجھے حلال رِزق عطا فرما کر حرام سے بچا اور اپنے فضل وکرم سے اپنے سواغیروں سے بے نیاز کردے)    ( تِرمِذی ج۵ ص۳۲۹ حدیث۳۵۷۴)

صُبح وشام کی تعریف: آدھی رات کے  بعد سے لے کر سورج کی پہلی کرن چمکنے تک صبح اور ابتدائی وقتِ ظہر سے غروبِ آفتاب تک شام کہلاتی ہے۔

مَدَنی مشورہ:  پریشان حال اسلامی بھائی کو چاہئے کہ دعوتِ اسلامی کے  سنتوں کی تربیت کے  مَدَنی قافلے میں  عاشقانِ رسول  کے  ساتھ سنتوں بھراسفرکرکے  وہاں دعا مانگے، اگر خودمجبور ہے مَثَلًا اسلامی بہن ہے تو اپنے گھر میں  سے کسی اورکو سفرپربھجوائے۔

اِفطار کا بیان:

جب غروبِ آفتاب کا یقین ہوجا ئے،  اِفطَار کرنے میں  دیر نہیں کرنی چاہئے،  نہ سائرن کا اِنتظار کیجئے نہ اَذان کا،  فَوراً کوئی چیز کھایا پی لیجئے مگر کَھجور یا چھوہارا یا پانی سے اِفطَار کرنا سُنَّت ہے۔  ’’ فتاوٰی رضویہ  ‘‘  میں  ہے،  سوال :  روزہ اِفطار کرنا کس چیز سے مسنون (سنّت) ہے۔ جواب:  خرمائے تر(یعنی کھجور)  اور نہ ہوتو خشک (یعنی چھوہارا) اور نہ ہوتو پانی ۔    (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ  ج۱۰ ص ۶۲۸۔۶۲۹)  

اِفطار کی دُعا :

اِفطار کرلینے کے  بعد مثلاًکَھجورکھا کر یا تھوڑا سا پانی پی لینے کے  بعد سنت پر عمل کرنے کی نیت سے نیچے دی ہوئی دُعا بھی پڑھئے،  کہ مدینے کے  تاجدار ،  شہنشاہِ اَبرار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَبوقت افطار یہ دعا پڑھتے:  اَللّٰھُمَّ  لَکَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ ۔(ترجمہ: اے اللہ عَزَّوَجَلَّمیں  نے تیرے لئے روزہ رکھا اور تیرے ہی عطا کردہ رِزق سے اِفطار کیا۔)  ( ابو داوٗد ج۲ص۴۴۷ حدیث ۲۳۵۸ ) دوسری حدیث پاک میں    فرمانِ مصطَفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے:   ’’ اے علی! جب تم رمضان کے  مہینے میں  روزہ رکھو تو افطار کے  بعد یہ دعا پڑھو:  اَللّٰھُمَّ  لَکَ صُمْتُ وَعَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ ۔ (ترجمہ:  اے اللہ عَزَّوَجَلَّ!میں  نے تیرے لئے روزہ رکھااور تجھی پر بھروسا کیا اور تیرے ہی عطا کردہ رِزق سے اِفطار کیا)  تو تمہارے لیے تمام روزے داروں کی مثل اجر لکھا جا ئے گا اور ان کے  ثواب میں  بھی کمی نہیں کی جا ئے گی۔ ‘‘ (بُغْیَۃُ الْباحِث عن زوائِدِ مسندِ الْحارث ج۱ص۵۲۷ حدیث۴۶۹)  اس کے  بعد ہوسکے  تو مزید دعائیں بھی کیجئے کہ وقت قبول ہے۔

 اِفطار کے  لیے اذان شرط نہیں :

اِفطار کی دُعا عموماًقبل از اِفطار پڑھنے کا رواج ہے مگر امامِ اہلسنت مولانا شاہ احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن نے  ’’  فتاویٰ رضویہ(مُخَرَّجہ)  جلد10 صفحہ631 ‘‘  میں  اپنی تحقیق یہی پیش کی ہے کہ دُعا اِفطار کے  بعد پڑھی جا ئے۔افطار کیلئے اذان شرط نہیں ،  ورنہ اُن عَلاقوں یاشہروں میں  روزہ کیسے کھلے گا جہاں مساجد ہی نہیں یا اذان کی آواز نہیں آتی ۔ بہر حال اَذان نَمازِ مغرب کیلئے ہوتی ہے ۔ جہاں مساجد ہوں ! زہے نصیب! وہاں یہ طریقہ رائج ہو جا ئے کہ جیسے ہی آفتاب غروب ہونے کا یقین ہوجا ئے،  بلندآواز سے  ’’  صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !       صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد  ‘‘ کہنے کے  بعد اس طرح تین بار اِعلان کر دیا جا ئے :   ’’ عاشقانِ رسول! روزہ اِفطار کرلیجئے۔ ‘‘

 ’’ مدینہ ‘‘  کے  پانچ حروف کی نسنت سےافطار کے  فضائل

کے  متعلق 5 فرامین مصطَفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ

 {۱}    ’’ ہمیشہ لوگ خیر کے  ساتھ رہیں گے جب تک اِفطار میں  جلدی کر یں گے۔ ‘‘  ( بُخاری ج۱ص۶۴۵حدیث۱۹۵۷)

اِفطار کروانے کی عظیم الشّان فضیلت

 {۲}   ’’ جس نے حلال کھانے یا پانی سے(کسی مسلمان کو) روزہ اِفطار کروایا، فرشتے ماہِ رَمضان کے  اَوقات میں  اُس کے  لئے اِستغفار کرتے ہیں اور جبریل(عَلَيْهِالصَّلٰوۃُ وَالسَّلام)  شبِ قدرمیں  اُس کیلئے اِستغفار کرتے ہیں ۔ ‘‘  ( مُعجَم کبیر ج۶ ص۲ ۶ ۲ حدیث۶۱۶۲)

جِبرِیل امین کے  مُصافَحَہ کرنے کی علامت

 



[1]     مکاتب اس غلام کو کہتے ہیں جس نے اپنے آقا سے مال کی ادائیگی کے بدلے آزادی کا معاہدہ کیا ہوا ہو۔ (المختصر القدوری ، کتاب المکاتب ص ۳۷۶)

[2]    صیر ایک پہاڑ کا نام ہے ( النھایۃ ، ج ۳، ص۶۱)

Index