مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : یعنی اللہ ان پرکرم نہ کرے گا، ورنہ رب کو کسی بندے کی ضرورت نہیں ، وہ ضرورتوں سے پاک ہے۔(مراٰۃ المناجیح ج۱ ص۴۵۷)
اللہ تیری گمشدہ چیز نہ ملائے:
حضرتِ سیِّدُناابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ، راحتِ قلب وسینہ، فیض گنجینہ ، صاحبِ معطر پسینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم فرماتے ہیں : جو کسی کو مسجِد میں گمشدہ چیز ڈھونڈتے سنے (یا دیکھے) تو کہے: ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّکرے تجھے وہ چیز نہ ملے۔ ‘‘ کیونکہ مسجِدیں اس لیے نہیں بنی ہیں ۔(مسلم ص۲۸۴ حدیث ۵۶۸)
حضرتِ سیِّدُنا سَائِب بن یزید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں مسجِد میں کھڑا تھا کہ مجھے کسی نے کنکری ماری میں نے دیکھا تو وہ امیرُالْمُؤمِنین حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تھے، اُنھوں نے مجھ سے (اشارہ کرکے ) فرمایا: ’’ اُن دو شخصوں کو میرے پاس لاؤ! ‘‘ میں ان دونوں کولے آیا۔ حضرت سیِّدُناعمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اُن سے اِسْتِفْسار فرمایا: ’’ تم کہاں سے تَعَلُّق رکھتے ہو؟ عرض کی: ’’ طائف سے۔ ‘‘ فرمایا: ’’ اگرتم مدینۂ منوَّرہ کے رہنے والے ہوتے (کیونکہ وہ مسجِدکے آداب بخوبی جا نتے ہیں ) تو میں تمہیں ضرور سزا دیتا (کیونکہ) تم رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسجِد میں اپنی آوازیں بلند کرتے ہو! ‘‘ (بُخاری ج۱ص۱۷۸حدیث۴۷۰)
مباح کلام نیکیوں کو کھا جا تا ہے :
حضرتِ سیِّدُنا علّامہ علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ البَارِی، مُحَقِّق عَلَی الْاِطْلاقشیخ ابن ھمام عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ السَّلَامکے حوالے سے نَقْل فرماتے ہیں : ’’ مسجِد میں مُباح (یعنی جس میں نہ ثواب ہو نہ گناہ ایسی جا ئز) بات کرنا مکروہ ہے اور نیکیو ں کو کھاجا تا ہے۔ ‘‘ (مِرقاۃُ المَفاتیح ج ۲ ص ۴۴۹)
40 سال کے اَعمال بربادفرما دے:
٭امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن لکھتے ہیں : جو مسجِد میں دُنیا کی بات کرے ، اللہ عَزَّوَجَلَّاُس کے چالیس برس کے نیک اعمال اکارت ( یعنی برباد) فرمادے۔ (فتاوٰی رضویہ ج۱۶ ص۳۱۱، غَمزُ الْعُیون ج۳ص۱۹۰)
مسجد میں ہنسنا قبر میں اندھیرا لاتا ہے:
سَیِّدُنا اَنس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ سرکارِ والا تبار، بِاِذْنِ پروَردگار دو جہاں کے مالِک ومختار، شہنشاہِ اَبرار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اَلضَّحِکُ فِی الْمَسْجِدِ ظُلْمَۃٌ فِی الْقَبْرِ ۔ ترجمہ: ’’ مسجِد میں ہنسنا قبر میں اندھیرا (لاتا) ہے۔ ‘‘ (اَلْفِردَوس بمأثور الْخِطاب ج۲ص۴۳۱حدیث۳۸۹۱)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! مذکورہ بالا رِوایات باربارپڑھئے اوراللہ عَزَّوَجَلَّکے خوف سے لرزئیے!کہیں ایسانہ ہوکہ مسجدمیں داخِل تو ہوئے ثواب کمانے مگر خوب ہنس بول کرنیکیاں بربادکرکے باہرنکلے کہ مسجِد میں بلا اجا زتِ شرعی دُنیا کی جا ئز بات بھی نیکیوں کوکھاجا تی ہے، لہٰذا مسجِد میں پرسکون اور خاموش رہئے۔ بیان بھی کریں یاسنیں توسنجیدگی کے ساتھ کہ کوئی ایسی بات نہ ہو جس سے لوگوں کو ہنسی آئے۔نہ خودہنسئے نہ لوگوں کوہنسنے دیجئے کہ مسجد میں ہنسنا قَبْر میں اندھیرا لاتا ہے۔ ہاں ضرورتاً مسکرانا منع نہیں ۔مسجِد کے اِحترام کا ذِہن بنانے کیلئے دعوتِ اسلامی کے مَدَنی قافلوں میں سفر کا معمول بنائیے ۔آپ کی ترغیب کیلئے ایک مَدَنی بہار گوش گزار کرتا ہوں چنانچہ
حویلیاں کینٹ (خیبر پختونخواہ، پاکستان) کے ایک اسلامی بھائی گناہوں میں ڈوبے ہوئے تھے ، بچے جوان ہو چکے تھے پھر بھی فیشن کا آسیب نہیں اُترتا تھا۔ ماہِ رَمَضانُ الْمُبارَکمیں بابُ المدینہ کراچی سے تبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک، دعوتِ اسلامی کے عاشِقان رسول کا ایک ماہ کا مَدَنی قافِلہ حویلیاں تشریف فرما ہوا۔ اُس مَدَنی قافلے کی خصوصیت یہ تھی کہ اُس میں دعوتِ اسلامی کی مجلسِ شوریٰ کے رُکن مفتی دعوتِ اسلامی الحاج الحافظ محمد فاروق عطاری مَدَنی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْغَنِیبھی شریک تھے۔ اس اسلامی بھائی کے بڑے صاحبزادے انہیں مَدَنی قافلے والے عاشقانِ رسول سے ملوانے لے گئے۔ مفتی دعوتِ اسلامی قُدِّسَ سِرُّہُ السّامیکی انفرادی کوشش سے وہ بھی مَدَنی قافلے کے ساتھ آخری عشرے میں مُعتَکِف ہوگئے۔ مفتی دعوتِ اسلامی قُدِّسَ سِرُّہُ السّامیکے حسنِ اَخلاق نے ان کا دل جیت لیا، دیگر عاشِقانِ رسول نے بھی ان پر خوب اِنفرادی کوشش کی، حتّٰی کہ ان کا دل موم ہو گیا اور اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّان کے قلب میں مَدَنی