فیضان رمضان

دروازے کھول دئیے جا تے ہیں ،  برکتوں کانزول ہوتا ہے،  خطائیں مٹا دی جا تی ہیں اور گناہوں کا کفارہ ادا کیا جا تا ہے، اور خیرُالْبَرِیّہ،  سَیِّدُ الْوریٰ جنابِ محمدمصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم پر دُرُود پاک کی کثرت کی جا تی ہے اور یہ نبیِّ مختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم پر دُرُود بھیجنے کا مہینا ہے۔ ‘‘ (غُنْیَۃُ الطّالِبین ج ۱ ص ۳۴۱ ،  ۳۴۲)

صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا جذبہ :

حضرتسَیِّدُنا اَنس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :   ’’ شعبان کا چاند نظر آتے ہی صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان تِلاوتِ قراٰنِ پاک کی طرف خوب مُتَوَجِّہ ہوجا تے،  اپنے اَموال کی زکوٰۃ نکالتے تاکہ غربا ومساکین مسلمان ماہِ رَمضان کے  روزوں کے  لئے تیاری کرسکیں ،  حکام قیدیوں کوطلب کرکے  جس پر  ’’ حد ‘‘  ( یعنی شرعی سزا)  جا ری کرنا ہوتی اُس پر حَد قائم کرتے،  بقیہ میں  سے جن کو مناسب ہوتا اُنہیں آزاد کردیتے،  تاجر اپنے قرضے ادا کردیتے،  دوسروں سے اپنے قرضے وُصُول کرلیتے۔ (یوں ماہ ِ رَمَضانُ الْمبارَک سے قبل ہی اپنے آپ کو فارِغ کرلیتے)  اور رَمَضان شریف کا چاند نظر آتے ہی غسل کرکے (بعض حضرات) اعتکاف میں  بیٹھ جا تے۔ ‘‘  (اَیضاًص۳۴۱ )

موجودہ مسلمانوں کا جذبہ :

سُبْحٰنَ اللہِ عَزَّوَجَلَّ! پہلے کے  مسلمانوں کو عبادت کاکِس قدرذَوق ہوتا تھا! مگر افسوس! آج کل کے  مسلمانوں کو زیادہ تر حُصولِ مال ہی کا شوق ہے۔ پہلے کے  مَدَنی سوچ رکھنے والے مسلمان متبرک ایّام (یعنی برکت والے دِنوں )  میں  ربُّ الانام عَزَّوَجَلَّ کی زیادہ سے زیادہ عبادت کرکے  اُس کا قرب حاصِل کرنے کی کوششیں کرتے تھے اور آج کل کے  بعض مسلمان مُبارَک دنوں ،  خصوصاً ماہِ رَمَضانُ المبارَک میں  دنیا کی ذلیل دولت کمانے کی نئی نئی ترکیبیں سوچتے ہیں ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّاپنے بندوں پر مہربان ہوکر نیکیوں کا اَجر و ثواب خوب بڑھادیتا ہے،  لیکن دنیا کی دولت سے مَحَبَّت کرنے والے لوگ رَمَضانُ المبارَک میں  اپنی  چیزوں کا بھاؤ بڑھا کرغریب مسلمانوں کی پریشانیوں میں

 اضافہ کردیتے ہیں ۔ صد کروڑ افسوس! خیرخواہیِ مسلمین کا جذبہ اب دم توڑتا نظرآ رہا ہے!   ؎

ا ے خاصۂِ خاصانِ رُسُل وقتِ دُعا ہے    اُمّت پہ تِری آکے  عَجَب وَقت پڑا ہے

جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے    پردیس میں  وہ آج غریبُ الغربا ہے

فَریاد ہے اے کشتیِ اُمت کے  نگہبان       بیڑا یہ تباہی کے  قریب آن لگا ہے

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

تعظیم رَمضان کے  لیے شعبان کے  روزے:

سرکار مدینہ،  سلطانِ باقرینہ ،  قرارِ قلب وسینہ ،  فیض گنجینہ، صاحِبِ مُعطّر پسینہ، باعثِ نزولِ سکینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عظمت نشان ہے:   ’’ رَمضان کے  بعد سب سے افضل شعبان کے  روزے ہیں ،  تعظیمِ رَمضان کیلئے۔  ‘‘            ( شُعَبُ الْایمان ج۳ص۳۷۷حدیث۳۸۱۹)

آقا شعبان کے  اکثر روزے رکھتے تھے:

بخاری شریف میں  ہے: حضرتِ سیّدتُنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں :  کہ رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَشعبان سے زیادہ کسی مہینے میں  روزے نہ رکھتے بلکہ پورے شعبان ہی کے  روزے رکھ لیتے اور فرمایا کرتے:  اپنی اِستطاعت کے  مطابق عمل کرو کہ اللہ عَزَّوَجَلَّاُس وَقت تک اپنا فضل نہیں روکتا جب تک تم اُکتا نہ جا ؤ ۔ (بُخاری ج۱ ص۶۴۸ حدیث۱۹۷۰)

حدیث پاک کی شرح:

شارِحِ بخاری حضرتِ علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی اِس حدیثِ پاک کے  تحت لکھتے ہیں :  مراد یہ ہے کہ شعبان میں  اکثر دنوں میں  روزہ رکھتے تھے اسے تَغْلِیباً (تَغ۔لی۔باً یعنی غلبے اور زِیادت کے  لحاظ سے)   کل (یعنی سارے مہینے کے  روزے رکھنے)  سے تعبیر کردیا ۔جیسے کہتے ہیں :   ’’ فلاں نے پوری رات عبادت کی ‘‘  جب کہ اس نے رات میں  کھانا بھی کھایا ہو اورضروریات سے فراغت بھی کی ہو،  یہاں تَغْلِیباًاکثر کو  ’’ کل ‘‘  کہہ دیا۔ مزید فرماتے ہیں :  اِس حدیث سے معلوم ہوا کہ شعبان میں  جسے قوت ہو وہ زیادہ سے زیادہ روزے رکھے ۔البتہ جو کمزور ہو وہ روزہ نہ رکھے کیونکہ اس سے رَمضان کے  روزوں پر اثر پڑے گا، یہیمَحْمَل (مَح۔مَل یعنی مرادو مقصد)  ہے ان احادیث(مَثَلاً ترمذی،  حدیث 738 وغیرہ )   کا جن میں  فرمایا گیا :  ’’  نصف(یعنی آدھے)  شعبان کے  بعد روزہ نہ رکھو ۔ ‘‘

[ ترمذی حدیث۷۳۸]   (نزہۃ القاری ج۳ص۳۷۷، ۳۸۰ )

مرنے والوں کی فہرس بنانے کا مہینا:

حضرت سَیِّدَتُنا عائِشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہافرماتی ہیں : تاجدارِ رِسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپورے شعبان کے  روزے رکھا کرتے تھے ۔ فرماتی

Index