ماہِ مبارَک میں توبہ کرنے والوں پر رَحمت کا بہاؤ تیز ہوجا تا اور عبادت کرنے والوں پر قبولیت کے انوار کا فیضان ہوتا ہے ۔ اسے اَلْاَصَمّ (یعنی بہرا) بھی کہتے ہیں کیونکہ اِس میں جنگ و جَدَل کی آواز بالکل سنائی نہیں دیتی ۔ (مُکاشَفۃُ الْقُلوب ص۳۰۱)
رجب کے تین حُروف کی بھی کیا بات ہے!
سُبْحٰنَ اللہِ عَزَّوَجَلَّا! میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ماہِ رَجبُ المُرَجَّب کی بہاروں کی توکیا ہی بات ہے! ’’ مُکاشَفَۃُ الْقُلُوب ‘‘ میں ہے، بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن فرماتے ہیں : ’’ رجب ‘‘ میں تین حروف ہیں : ر، ج، ب، ’’ ر ‘‘ سے مراد رَحمتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ ، ’’ ج ‘‘ سے مُراد بندے کا جرم، ’’ ب ‘‘ سے مُراد بِرّ یعنی اِحسان۔ گویااللہ عَزَّوَجَلَّفرماتا ہے: میرے بندے کے جرم کو میری رَحمت اوراحسان کے درمیان کردو۔ (مُکاشَفۃُ الْقُلوب ص۳۰۱)
عصیاں سے کبھی ہم نے کَنَارا نہ کیا پر تو نے دل آزُردَہ ہمارا نہ کیا
ہم نے تو جہنَّم کی بہت کی تجویز لیکن تری رَحمت نے گوارا نہ کیا
حضرت سَیِّدُنا علامہ صفوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں : رَجَبُ الْمُرَجَّب بیج بونے کا، شَعْبانُ الْمُعَظَّم آبپاشی(یعنی پانی دینے ) کا اور رَمَضانُ الْمُبارَک فصل کاٹنے کا مہینا ہے، لہٰذا جو رَجَبُ الْمُرَجَّب میں عبادت کا بیج نہ بوئے اور شَعْبانُ الْمُعَظَّم میں اُسے آنسوؤں سے سیراب نہ کرے وہ رَمَضانُ الْمُبارَک میں فصلِ رَحمت کیوں کر کاٹ سکے گا؟مزید فرماتے ہیں : رَجَبُ الْمُرَجَّب جسم کو ، شَعْبانُ الْمُعَظَّم دل کو اور رَمَضانُ الْمُبارَک رُوح کو پاک کرتا ہے۔ (نُزْہَۃُ الْمَجا لِس ج۱ص۲۰۹)
جو ساری زندگی نہ سیکھ سکا وہ دس دن میں سیکھ لیا:
میٹھے میٹھے ا سلامی بھائیو!رَجَبُ الْمُرَجَّب میں عبادت اور روزوں کا ذہن بنانے کیلئے دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابَستہ رہئے۔ سنتوں کی تربیت کے مَدَنی قافلوں کے مسافر بنئے اور اجتماعی اعتکاف میں حصّہ لیجئے، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کے دونوں جہاں سنور جا ئیں گے۔ ترغیباً ایک خوشگوار مَدَنی بہار آپ کے گوش گزار کرتا ہوں : سعید آباد ، بلدیہ ٹاؤن، بابُ المدینہ کراچی کے ایک اسلامی بھائی اُن دنوں میڑک کے طالبِ علم تھے، وہ اپنے مکان مالِک جوکہ دعوتِ اسلامی والے تھے اُن کی انفرادی کوشِش سے اُن کے ساتھ تبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک، دعوتِ اسلامی کے تحت غوثیہ مسجِد، نیو سعید آباد، میمن کالونی میں ہونے والے رَمَضانُ المبارَک کے آخِری عشرے کے ’’ اعتکاف ‘‘ میں بیٹھ گئے ۔ المختصر انہوں نے اُن دس دنوں میں وہ کچھ سیکھا جو پچھلی تمام زندگی میں نہ سیکھ پائے تھے۔ اعتکاف ہی میں دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول کو مضبوطی سے اپنا لیا، وہیں سے مستقل عمامہ شریف سجا لیا، عید کے دوسرے دن عاشقانِ رسول کے ساتھ مَدَنی قافِلے میں سنتوں بھرا سفر کیا۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ ان پر مَدَنی رنگ چڑھتا چلاگیا اور انہیں تنظیمی طور پر ’’ مَدَنی انعامات ‘‘ کی ذمّہ داری بھی دی گئی۔
رحمتیں لوٹنے کے لئے آؤ تم، مَدَنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف
سنتیں سیکھنے کیلئے آؤ تم، مَدَنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف (وسائلِ بخشش ص۶۴۰)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حضرت سیِّدُنا ابو اُمامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ نبی کریم، رء ُو ْفٌ رّ حیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عظیم ہے: ’’ پانچ راتیں ایسی ہیں جس میں دُعا رَد نہیں کی جا تی {۱} رجب کی پہلی (یعنی چاند ) رات {۲} شعبان کی پندَرَھویں رات(یعنی شبِ براء ت ) {۳} شبِ جمعہ(یعنی جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات) {۴} عیدالفطرکی (چاند ) رات {۵} عیدُالْاَضْحٰی کی (یعنی ذُوالْحِجّہ کی دسویں ) رات ۔ ‘‘ ( ابنِ عَساکِر ج ۱۰ ص ۴۰۸)
جنت میں لے جا نے والی پانچ راتیں :
حضرتسیِّدُناخالد بن معدان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّانفرماتے ہیں : سال میں پانچ راتیں ایسی ہیں جو ان کی تصدیق کرتے ہوئے بہ نیت ثواب ان کو عبادت میں گزارے گا، اللہ تَعَالٰی اُسے داخلِ جنت فرمائے گا {۱} رجب کی پہلی رات کہ اس رات میں عبادت کرے اور اس کے دن میں روزہ رکھے {۲} شعبان کی پندرَھویں رات (یعنی شبِ برائَ ت) کہ اس رات میں عبادت کرے اور دن میں روزہ رکھے {۳، ۴} عیدین کی راتیں (یعنی عید الفطر کی (چاند) رات اورشبِ عیدُ الْاَضْحٰی یعنی 9 اور 10 ذُو الْحِجّہ کی درمیانی رات ) کہ ان راتوں میں عبادت کرے اور دن میں روزہ نہ رکھے (عیدین میں روزہ رکھنا، ناجا ئز ہے) اور {۵} شب ِعاشورا (یعنی محرمُ الحرام کی دَسویں شب ) کہ اس رات میں عبادت کرے اور دن میں روزہ رکھے۔ ( فَضائِلُ شَہْرِ رَجَب لِلخَلّال ص۱۰، غُنْیَۃُ الطّا لِبِیْن ج۱ ص۳۲۷)
پہلا روزہ تین سال کے گناہوں کا کفارہ: