فیضان رمضان

روزہ رکھنے کی وجہ سے اس کا ظنِّ غالب ہو کہ اتنے کمزور ہوجا ئیں گے کہ جو حقوق ان پر واجب ہیں اُن کو ادا نہیں کر پائیں گے خواہ وہ حقوق دینی ہوں یا دُنْیوی،  مَثَلاً نماز،  جہاد،  بچّوں کی پرورش کے  لیے کمائی،  اور (پہلی صورت سے ہٹ کر دوسری صورت یہ بنتی ہے کہ) اگر مسلسل روزہ رکھنے کی وجہ سے (اگر) ان (روزہ داروں ) کا ظنِّ غالب ہو کہ حقوقِ واجبہ تو کما حَقُّہٗ (یعنی مکمَّل طور پر)  ادا کرلیں گے مگر حقو قِ غیر واجبہ اد اکرنے کی قوت نہیں رہے گی،  ان کے  لیے روزہ مکروہ یا خلافِ اَولیٰ ہے اور جنہیں اس کا ظنِّ غالب ہو کہ صومِ دَہر(یعنی ہمیشہ روزہ ) رکھنے کے  باوجود تمام حقوقِ واجبہ،  مسنونہ،  مُسْتَحبّہ کما حَقُّہٗ (یعنی مکمَّل طور پر)  ادا کرلیں گے ان کے  لیے کراہت بھی نہیں ۔ بعض صحابۂ کرام جیسے ابوطلحہ انصاری اور حمزہ بن عمرو اسلمی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا صومِ دَہر(یعنی ہمیشہ روزہ )  رکھتے تھے اور حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں منع نہیں فرمایا،  اسی طرح بہت سے تابعین اور اولیاءِ کرام سے بھی صومِ دَہر(یعنی ہمیشہ روزہ )  رکھنا منقول ہے۔ [ اشعۃ اللمعات جلد ثانی ص ۱۰۰]  (نزہۃ القاری ج۳ص۳۸۶ مُلَخّصاً)

            یا ربِّ مصطَفٰےعَزَّوَجَلَّ! ہمیں  زندَگی ، صحت اور فرصت کو غنیمت جا نتے ہوئے خوب خوب نفل روزے رکھنے کی سعادت عنایت فرما،  انہیں قبول بھی کر، ہمیں  بے حساب بخش دے اور ہمارے میٹھے میٹھے محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ساری اُمّت کی مغفرت فرما۔  اٰمین بِجا ہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط  بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

 ’’ رَمَضانُ المُبارَک ‘‘  کے  بارہ حُرُوف کی

 نسبت سےروزہ داروں کی 12حِکایات

 

دُرُود شریف کی فضیلت:

فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:  جو میری مَحبَّت اورمیری طرف شوق کی وجہ سے مجھ پر ہر دن اور ہر رات کو تین تین بار دُرُود شریف پڑھے تو اللہ عَزَّوَجَلَّپر حق ہے کہ وہ اِس کے  اُس دن اور اُس رات کے  گناہ بخش دے۔                 (مُعجَم کبیر ج۱۸ص۳۶۲حدیث۹۲۸)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

(1)    حجا ج بن یوسُف اور روزہ دار اَعرابی:

            حجا ج بن یوسُف ایک مرتبہ سخت گرمیوں میں  دَورانِ سفر حج مکۂ معظمہ و مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًکے  درمیان ایک منزل میں  اُترا اور دوپہر کا کھانا تیَّار کروایا اور اپنے حاجب(یعنی چوکیدار)  سے کہاکہ کسی مہمان کولے آؤ۔ حاجب خیمے سے باہر نکلاتواُسے ایک اَعرابی لیٹا ہوا نظرآیا، اِس نے اُسے جگایا اور کہا:  چلو تمہیں امیر حَجا ج  بلا رہے ہیں ۔ اَعرابی آیا تو حَجا ج نے کہا: میری دعوت قبول کرو اور ہاتھ دھو کر میرے ساتھ کھاناکھانے بیٹھ جا ؤ۔ اَعرابی بولا:  مُعاف فرمائیے! آپ کی دعوت سے پہلے میں  آپ سے بہتر ایک کریم کی دعوت قبول کرچکا ہوں ۔ حَجا ج نے کہا:  وہ کس کی ؟ وہ بولا:  اللہ تَعَالٰی کی جس نے مجھے روزہ رکھنے کی دعوت دی اور میں  روزہ رکھ چکا ہوں ۔ حَجا ج نے کہا:  اتنی سخت گرمی میں  روزہ؟

 اَعرابی نے کہا:  ہاں ! قِیامت کی سخت ترین گرمی سے بچنے کیلئے ۔حَجا جنے کہا:  آج کھانا کھالو اور یہ روزہ کل رکھ لینا۔ اَعرابی بولا:  کیا آپ اِس بات کی ضمانت دیتے ہیں کہ میں  کل تک زندہ رہوں گا! حَجا ج نے کہا یہ بات تو نہیں ۔ اَعرابی بولا:  توپھر وہ بات بھی نہیں ۔یہ کہا اور چل دیا۔  (رََوضُ الرِّیاحِین ص۲۱۲)  اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے  صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجا ہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

            میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اللہ عَزَّوَجَلَّ کے  نیک بندے کسی دُنیوی حاکم کے  رُعب میں  نہیں آتے اوریہ بھی معلوم ہواکہ جو عاشقانِ رسول یہاں کی گرمی برداشت کرکے  روزہ رکھتے ہیں وہ کل قیامت کی ہولناک گرمی سے محفوظ رہیں گے اِنْ شَآءَاللہ  عَزَّوَجَلَّ

 (۲) سچّا چرواہا :

حضرت سیِّدُنا نافِعرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں :  حضرت سیِّدُنا عبدُاللّٰہبن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اپنے بعض ساتھیوں کے  ساتھ ایک سفر میں  تھے راستے میں  ایک جگہ ٹھہرے اور کھانے کے  لیے دسترخوان بچھایا،  اتنے میں  ایک چرواہا (یعنی بکریاں چرانے والا)  وہاں آگیا ، آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا:  آئیے! دسترخوان سے کچھ

Index