فیضان رمضان

’’ الوداع ماہِ رمضان ‘‘  کے  ایسے اَشعار جن میں  کوئی شرعی خرابی نہ ہو اُن کا پڑھنا سننا مباح و جا ئز ہے، البتہ اس میں  ثواب حاصل کرنے کیلئے اچھی نیت ضروری ہے اورجس قدر اچھی نیتیں زیادہ ہوں گی اُسی قدر ثواب بھی زیادہ ملے گا۔

 ’’ رَمَضانُ المُبارک ‘‘ کے  بارہ حروف کی نسبت

سے ’’  الوداع ماہِ رَمضان ‘‘  کے  متعلق 12نیتیں

 {۱}  ’’ الوداع ماہِ رَمضان ‘‘  پڑھنے سننے کے  ذریعے وعظ و نصیحت حاصل کروں گا  {۲}  اللہ ورَسُولَ عَزَّوَجَلَّ  وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی مَحَبَّت،  ماہِ رَمَضانُ الْمبارَک کی اُلفت دل میں  بڑھاؤں گا {۳}  نیکیوں میں  رغبت حاصل کروں گا {۴}  گناہوں سے بچنے کا ذِہن بناؤں گا۔( یہ نیتیں اُسی صورت میں  دُرُست ہوں گی جبکہ پڑھا جا نے والا کلام شریعت کے  مطابق ہو اور اُس میں  وعظ و نصیحت وغیرہ شامل بھی ہو)   {۵} رَمَضانُ الْمُبارَک کی آخری گھڑی تک بارگاہِ الٰہی میں  اپنی مغفرت کیلئے وقتاً فوقتاً گریہ وزاری کی کوشش کرتا رہوں گا۔ (آہ!آہ!آہ!ایک فرمانِ مصطَفٰےصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّممیں  یہ بھی ہے:  ’’ محروم ہے وہ شخص جس نے رَمضا ن کو پایا اور اس کی مغفرت نہ ہوئی کہ جب اس کی رَمضا ن میں  مغفرت نہ ہوئی تو پھر کب ہوگی!  ‘‘     (مُعجَم اَوسَط ج۵ص۳۶۶حدیث۷۶۲۷) )

واسطہ رَمضان کا یارب! ہمیں  تو بخش دے

نیکیوں کا اپنے پلے کچھ نہیں سامان ہے    (وسائلِ بخشش ص۷۰۴)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 {۶}  اس نیت سے ’’  الوداع ماہ ِ رمضان  ‘‘ کے  اجتماع میں  شرکت کروں گا کہ نیکیوں کا جذبہ باقی رہے بلکہ مزید بڑھے۔ (کیونکہ ماہِ رَمَضانُ الْمبارَکمیں  نیک لوگوں کے  اندر نیکیوں کا جذبہ بڑھ جا تا ہے)   {۷} بہت سے لوگ خوف ِ خدا کے  سبب گناہوں سے رُک جا تے ہیں مگر افسوس! رَمَضان شریف جوں ہی رخصت ہوتا ہے بے عملی ایک بارپھربڑھ جا تی ہے اور نمازیوں کی تعدادمیں  بھی کمی آجا تی ہے ، آہ! مسجدیں خالی خالی نظر آتی ہیں ،  ان تصوُّرات کے  ساتھ نہ صرف خود بھی بے عملی سے بچنے کی نیت سے بلکہ دوسروں کے  متعلق دل میں  کڑھن (یعنی دُکھ)  رکھ کر سوزورقت کے  ساتھ ماہِ رَمضان کواَلوداع کر کے  اپنا خوفِ خدا بڑھاؤں گا  {۸} آیندہ سال ماہِ رَمضان نصیب ہونے کی آرزو اور اُس میں  خوب خوب نیکیاں کرنے کی نیَّت شامل رکھ کر رو رو کر اِس سال کے  ماہِ رَمضان کو اَلوداع کروں گا  {۹}  تَشَبُّہ بِالصّٰلِحِین (یعنی نیک لوگوں سے مشابہت)  اختیار کروں گا کہ سلَف صالحین(یعنی گزشتہ زمانے کے  بُزرگانِ دین)  رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْنرَمَضانُ الْمبارَک کی جدائی پرغمگین ہوتے تھے  {۱۰}  خائفین(یعنی خوفِ خدا رکھنے والوں )  کے  اجتماع کی بَرَکات حاصل کروں گا(اَلْحَمْدُلِلّٰہِ  اس طرح کے  روح پرور اجتماعات دعوت ِ اسلامی میں  دیکھے جا  سکتے ہیں )  {۱۱}  اشعارکی صورت میں  مانگی جا نے والی دعاؤں میں  شرکت کروں گا کہ الوداع کے  بعض اشعار ، اصلاحِ اعمال ، خاتمہ بالخیر اور مغفرت وغیرہ کی دعا پر مشتمل ہوتے ہیں  {۱۲}  اللہ ورَسُولَ اور نیک اعمال کیمَحَبَّت میں  رونے کی کوشش کروں گاکہ الوداع پڑھنے سننے والوں کو اللہ ورَسُولَ عَزَّوَجَلَّ  وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اور ماہِ رَمَضانُ الْمبارَک کی مَحَبَّت میں  عموماً رونے کی سعادت نصیب ہوتی ہے۔جو علمِ نیت رکھتا ہے وہ مزید نیتیں بڑھا سکتا ہے۔ 

ہائے عطارِؔ بدکار کاہِل            رہ گیا یہ عبادت سے غافل

اِس سے خوش ہو کے  ہونا روانہ             اَلوَداع اَلوَداع آہ! رَمضاں    (وسائلِ بخشش ص۶۵۳)  

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 آمد رَمضان پر مبارک باد دینا سنت سے ثابت ہے :

مُفَسِّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر  تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان حدیثِ پاک کے  اِس حصے :  اَتَاکُمْ رَمَضانُ شَھْرٌ مُّبارَکٌ یعنی  ’’ رَمضان کا مہینا آگیا ہے جو کہ نہایت ہی با برکت ہے ‘‘ کے  تحت  ’’ مراٰۃ ‘‘  جلد3 صفحہ137 پر فرماتے ہیں : برکت کے  معنیٰ ہیں بیٹھ جا نا ، جم جا نا۔ اِسی لیے اُونٹ کے  طویلے کو مبارَکُ الْاِبِل کہا جا تا ہے کہ وہاں اونٹ بیٹھتے بندھتے ہیں ۔ اب وہ زیادتیِ خیر(یعنی بھلائی کا بڑھنا)  جو آکر نہ جا ئے برکت کہلاتی ہے،  چونکہ ماہِ رَمضان میں  حسی(یعنی محسوس کی جا سکنے والی)  برکتیں بھی ہیں اور غیبی برکتیں بھی،  اِس لیے اس مہینے کا نام ’’  ماہِ مبارَک ‘‘  بھی ہے ۔رَمضان میں  قدرَتی طور پر مومنوں کے  رزق میں  برکت ہوتی ہے اور ہر نیکی کا ثواب 70 گنا یا اس سے بھی زیادہ ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ماہِ رَمَضانُ الْمبارَک کی آمد (یعنی آنے)  پر خوش ہونا،  ایک دوسرے کو مبارَک باد دینا سنت(سے ثابِت) ہے اور جس کی آمد(یعنی آنے )   پر خوشی ہونی چاہیے اُس کے  جا نے پر غم بھی ہونا چاہیے،  دیکھو! نکاح ختم ہونے پر عورت کو شرعاً غم لازِم ہے،  اسی لیے اکثر مسلمان جُمُعَۃُ الْوَداع کو مغموم اور چشم پر نم (یعنی غمگین ہوتے اور رو رہے)  ہوتے ہیں اورخطبا (یعنی خطیب صاحبان)  اس دن میں  کچھ وَداعیہ کلمات (الوداع ماہِ رمضان سے متعلق کچھ جملے)  کہتے ہیں تاکہ مسلمان باقی ( بچی ہوئی ) گھڑیوں کو غنیمت جا ن کر نیکیوں میں  اور زیادہ کوشش کریں ۔ (مراٰۃ المناجیح ج۳ص۱۳۷)

 

Index